﴿فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا﴾(20) اور﴿رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَہَارًا﴾(21) اور﴿ثُمَّ اِنِّیْٓ دَعَوْتُہُمْ جِہَارًا﴾(22) اور ﴿ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَاَسْرَرْتُ لَہُمْ اِسْرَارًا﴾(23) وغیرہ میں دعوت و تبلیغ کے منہج کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ان آیات میں غور وفکر کرنے والے کے لیے دعوت و تبلیغ کے تفصیلی منہج کے حوالے سے علم و حکمت کے بہت سے خزانے پنہاں ہیں ۔ پس انفرادی اور شخصی زندگی میں نفاذ شریعت کے لیے بہترین اسلوب و منہج‘ اخلاص وعمل کی بنیادپر‘کتاب وسنت کی دعوت وتبلیغ ہے۔ بعض لوگوں کا یہ جو خیال ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والی جماعتیں نفاذ شریعت یا اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کام نہیں کر رہی ہیں تو ہمیں اس خیال سے بالکل بھی اتفاق نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والی جماعتیں افراد اور خاندان میں انقلاب برپا کر رہی ہیں جو معاشرے کی اکائی ہے۔ اجتماعیت کی تبدیلی کی بنیاد بھی اس کی اکائی ہی ہوتی ہے ۔ افراد کی اصلاح ہو گی یا افراد میں انقلاب برپا ہو گا تو معاشروں اور اجتماعیت میں بھی تبدیلی پیدا ہو گی۔ پس افراد میں نفاذ شریعت کے لحاظ سے دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والی جماعتوں کا کام مستحسن ہے اگرچہ ان جماعتوں کے نصاب تعلیم‘ دعوت و تبلیغ کے منہج و طریق کار میں بہتری اور تبدیلی کی گنجائش اور ضرورت بہر صورت موجود ہے اور اس کی طرف ان جماعتوں کے اکابر کو توجہ دینی اور دلانی چاہیے۔ اجتماعیت پر نفاذ شریعت کا منہج جہاد ہے جہاد کا لفظ قرآن میں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور قرآنی اصطلاح میں اللہ کے دین کی سربلندی کے جذبے‘ نیت اور ارادے سے کی جانے والی ہرتبلیغی‘ دعوتی‘ تحریری‘ قولی‘قانونی‘ آئینی‘ معاشی‘ سیاسی‘ علمی‘ اصلاحی‘تحریکی اورجہادی کوشش ’جہاد‘ ہے اور اس کا آخری درجہ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دینا یعنی قتال فی سبیل اللہ ہے۔قرآن مجید نے ’جہاد‘ کی اصطلاح اسی وسیع معنی میں استعمال کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾(24) |