شعب الکفر بہ أن یسمی کافرا وإن کان ما قام بہ کفرا کما أنہ لا یلزم من قیام جزء من أجزاء العلم بہ أن یسمی عالما ولا من معرفۃ بعض مسائل الفقہ والطب أن یسمی فقیھا ولاطبیبا ولایمنع ذلک شعبہ الإیمان إیمانا شعبۃ النفاق نفاقا وشعبۃ الکفر کفرا وقد یطلق علیہ الفعل کقولہ فمن ترکھا فقد کفر ومن حلف بغیر اللّٰہ فقد کفر۔۔۔فمن صدر منہ خلۃ من خلال الکفر فلا یستحق اسم کافر علی الإطلاق وکذا یقال من ارتکب محرما إنہ فعل فسوقا وإنہ فسق بذلک المحرم ولایلزمہ اسم فاسق إلا بغلبۃ ذلک علیہ۔‘‘ (74) ’’ یہاں ایک اور اصول بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کی شاخوں میں سے کسی شاخ پر قائم ہو تو لازم نہیں ہے کہ اس پر لفظ مومن صادق آئے ‘ اگرچہ جس چیز کے ساتھ وہ کھڑاہو وہ ایمان ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کفرکی شاخوں میں سے کسی شاخ کے ساتھ کھڑا ہے تو لازم نہیں ہے کہ اسے کافر کہا جائے‘ اگرچہ جس کے ساتھ وہ کھڑا ہو وہ کفر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ اگر کسی شخص کو علم کے اجزا میں سے ایک جز حاصل ہو جائے تو اسے عالم نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی کو فقہ یا علم طب کے بعض مسائل کی معرفت ہو تو اس سے وہ فقیہہ یا طبیب نہیں بن جاتا۔لیکن یہ قاعدہ اور اصول اس بات میں مانع نہیں ہے کہ ہم اس شخص میں ایمان کی شاخ کو ایمان‘ نفاق کی شاخ کو نفاق اور کفر کی شاخ کو کفر کا نام دیں [یعنی اسم الفاعل کااطلاق اس وقت کیا جائے گا جبکہ کوئی شخص اس فعل کو بار بار کرنے والا ہو یا اس کے جمیع اجزا کا احاطہ کرنے والا ہو]۔ بعض اوقات اس پر صرف فعل کا اطلاق ہو گا جیسا کہ آپ نے فرمایا جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے کفر کیا(یعنی کفریہ فعل کیا ہے اور اس میں ایمان کی شاخوں کے ساتھ کفر کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی ہے)اور جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر کیا۔۔۔پس جس سے کفر کی صفات میں سے کوئی صفت صادر ہو تو اس کو مطلق طور پر کافر کہنا جائز نہیں ہے[ہاں ، مقید طور پر کافر مجازی یا کافر عملی کہا جا سکتا ہے]۔ اسی طرح جس نے کوئی حرام کام کیا تو اس نے اس حرام کام کے ارتکاب |