Maktaba Wahhabi

176 - 264
ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے اس فعل کو احادیث میں ایک کفریہ فعل قرار دیا گیا ہے اور ائمہ نے اس کے بارے میں سخت رائے کا اظہار کیا ہے۔چونکہ ہمارے معاشروں میں جہالت بہت عام ہے لہٰذا ایک بے نماز حکمران کے خلاف خروج کی درج ذیل دو شرائط ہونی چاہئیں : 1۔ حکمران کو علماء کی ایک جماعت نماز پڑھنے کی تلقین کرے۔نماز کے فضائل بتلائے اور اس کو نہ پڑھنے کی وعید سنائے۔اور نمازنہ پڑھنے کی صورت میں حکمران کو اس کا شرعی مقام(status)بھی بتلایا جائے ۔اگر پھر بھی حکمران نماز نہ پڑھنے پر مصر ہو تو اسے بتلایا جائے کہ اب تمہارے خلاف مسلمانوں کا خروج فلاں احادیث کی بنیاد پر جائز ہے۔ 2۔ اگر اس سب کچھ کے باوجود حکمران نماز نہ پڑھنے پر مصر رہے تو اس کے خلاف خروج اس صورت میں جائز ہو گا جبکہ اس خروج کی اہلیت و استطاعت ہو اور اس خروج میں مسلمانوں کابڑے پیمانے پر قتل عام یا فساد فی الارض یا امن و امان کی تباہی کا اندیشہ نہ ہو۔یعنی اگربغیر کسی بڑے فتنے و فساد کے ایسے حکمران سے نجات اور صالح حکمران کی تقرری ممکن ہو تو ایسا خروج جائز ہو گا۔ اس مسئلے میں وارد ہونے والی احادیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا خروج جائز ہے یعنی مباح ہے ‘ واجب نہیں ہے۔لہٰذا ایک مباح کام سے اگر ایک بڑا مقصد حاصل ہو رہا ہو لیکن اس مباح کام کے ارتکاب میں کوئی بڑا مفسدہ بھی ہو تو پھر اس مفسدے سے اجتناب(یعنی دفع مضرت )کو اس مقصد کے حصول(یعنی جلب منفعت) پر ترجیح حاصل ہو گی۔علاوہ ازیں اس خروج سے پہلے حکمران کا ساتھ دینے والے افراد پر ممکن حد تک حجت قائم کی جائے گی کہ وہ اس مسئلے میں حکمران کا ساتھ نہ دیں ۔اور اس خروج کی اہلیت و قدرت کا فیصلہ متعلقہ خطہ ارضی کے علماء ‘ مذہبی جماعتوں کے رہنما اور اصحاب حل وعقد کریں گے۔ ایک بے نماز حکمران کے خلاف خروج کے جواز کی دلیل یہ روایت ہے۔آپ کا ارشاد ہے: ((إنہ یستعمل علیکم أمراء فتعرفون وتنکرون فمن کرہ فقد بری
Flag Counter