لاتوں ‘ مکوں ‘ گالیوں اور ڈنڈوں کی صورت میں ملے گا۔تیسرا دوست اس بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔زید پہلے دوست کی بات مان لیتا ہے اور جواباً تھانیدار کی طر ف سے وہی رد عمل سامنے آتا ہے جس کا اظہار خیال دوسرے دوست نے کیا تھا۔زید رد عمل میں پھر تھانیدار کو ایک تھپڑ رسید کرتا ہے اور جواباً مسلسل تھانیدار کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا رہتا ہے ۔ اب زید کا پہلا دوست اپنے گھر‘ محلے اور مسجد میں جا کر تھانیدار کے ظلم کی داستانیں عام کرتا ہے لیکن اس سے زید کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ نہیں ہوتابلکہ اُس پر تھانیدار کا ظلم بڑھتا ہی رہتاہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ظالم حکمران سے قتال اس صورت جائز ہے جبکہ اس کی اہلیت و استطاعت ہواور فی زمانہ یہ اہلیت و استطاعت پیدا کرناتقریباً محال ہے۔لیکن اس اہلیت و استطاعت کی بعض مخصوص صورتوں پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔ جہاں تک اس موقف کا تعلق ہے کہ احادیث میں صرف انفرادی ظلم کے خلاف خروج سے منع کیاگیا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔بعض روایات میں حکمران کے اجتماعی ظلم کے خلاف بھی خروج سے منع کیا گیاہے۔جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے: ((یا نبی اللّٰہ أرأیت إن قامت علینا أمراء یسألوننا حقھم ویمنعوننا حقنا فما تأمرنا؟ فأعرض عنہ ثم سألہ فأعرض عنہ ثم سألہ فی الثالثۃ فجذبہ الأشعث بن قیس فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسمعوا وأطیعوا فإنما علیھم ما حملوا وعلیکم ما حملتم)) (64) ’’ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ہمارے پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہم سے تو اپنے حقوق کا سوال کریں لیکن ہمیں ہمارے حقوق نہ دیں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟آپ نے اس صحابی سے اعراض کیا۔اس نے پھر سوال کیا۔آپ نے پھر اعراض کیا۔اس نے پھر تیسری مرتبہ سوال کیا تو أشعث بن قیس t نے اس کو پیچھے سے کھینچا۔تو آپ نے فرمایا: تم سنو اور اطاعت کرو۔ان حکمرانوں پر محض اس کو پورا کرنا لازم ہے جس کے وہ ذمہ دار بنائے گئے(یعنی عوام کے حقوق پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے) اور تم پر اس کو پورا کرنا لازم ہے جس کے تم ذمہ دار بنائے گئے(یعنی حکمرانوں کے حقوق پورا کرناتمہاری ذمہ داری ہے)۔‘‘ |