Maktaba Wahhabi

182 - 264
خونریزی کے ہٹانا ممکن نہ ہو تو یہ خروج جائز نہ ہوگاکیونکہ اس حکمران کے بھی اعوان و انصار ہوتے ہیں جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کے کفر کے متقاضی ہیں ۔۔۔پس اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وہ حکمران دن چڑھے سورج کی طرح کافر ہو گیا ہے تو پھر بھی اس کے خلاف خروج اس صورت میں جائز نہیں ہو گا کہ جو صورت مسلمانوں کا خون بہانے اور ان کے مال کو حلال کرنے کو مستلزم ہو۔‘‘ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فإذا کانت ھذہ الطائفۃ التی ترید إزالۃ ھذا السلطان الذی فعل کفرا بواحا ویکون عندھا قدرۃ علی أن تزیلہ وتضع إماما طیبا دون أن یترتب علی ذلک فساد کبیر علی المسلمین وشر أعظم من شر ھذا السلطان فلا بأس‘ أما إذا کان الخروج یترتب علیہ فساد کبیر وواختلال الأمن وظلم الناس واغتیال من لا یستحق الاغتیال إلی غیر ھذا من الفساد العظیم ھذا لا یجوز بل یجب الصبر والسمع والطاعۃ فی المعروف ومناصحۃ ولاۃ الأمور والدعوۃ لھم بالخبر والاجتھاد فی تخفیف الشر وتقلیلہ وتکثیر الخبر وھذا ھو الطریق السوی الذی یجب أن یسلک لأن فی ذلک مصالح المسلمین عامۃ ولأن فی ذلک حفظ الأمن وسلامۃ المسلمین من شرأکثر۔‘‘ (72) ’’پس اگر وہ گروہ جو کہ کفر بواح کے مرتکب حکمران کو معزول کرنا چاہتا ہے اور اس گروہ کے پاس اس حکمران کو معزول کرنے اور اس کی جگہ صالح حکمران کی تقرری کی قدرت و صلاحیت ہو بشرطیکہ اس عمل میں مسلمان کسی بڑے فساد کا شکار نہ ہوں اور اس عمل کے نتیجے میں کوئی ایسا شر پیدا نہ ہو جو حکمران کے شر سے بڑھ کر ہو تو پھر اس خروج میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا فساد پیدا ہو رہا ہو اور امن و امان تباہ ہو جائے اور لوگوں پر ظلم اور بے گناہوں کا اندھا دھند قتل عام بڑھ جائے اور اس سے کوئی بڑا فساد بر پا ہو جائے تو پھر ایسا خروج جائز نہیں ہے بلکہ اس صورت میں صبر کرنا اور حکمران کی معروف میں اطاعت کرنااور حکمرانوں کو نصیحت کرنا اور ان کو خیر و بھلائی کی دعوت دینا اور ان
Flag Counter