کے شر کو کم کرنے کی کوشش کرنا اور ان کے خیر کو بڑھانے میں محنت کرناواجب ہے۔یہی وہ سیدھا رستہ ہے کہ جس پر چلنا ہمارے لیے واجب ہے کیونکہ اسی رستے پر چلنے میں مسلمانوں کی مصلحت عامہ ہے اور اسی طریقے کو اختیار کرنے میں امن و امان کی بقا اوربڑے شر سے مسلمانوں کی سلامتی ہے۔‘‘ اسی رائے کا اظہار شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے بھی کیا ہے۔(73) علماء نے عدم خروج کی حکمت کے طور پر اسی وجہ کوبیان کیاہے۔ لہٰذا ہر ایسا خروج کہ جس میں فتنہ و فساد اور مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت ہو‘ علماء اس کے مخالف ہیں ۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خروج کی حرمت کا سبب ہی یہی ہے کہ اس سے مسلمانوں میں باہمی قتل وغارت کا رستہ ہموار ہوتاہے۔وہ فرماتے ہیں : ’’قال العلماء وسبب عدم انعزالہ وتحریم الخروج علیہ ما یترتب علی ذلک من الفتن وإراقۃ الدماء وفساد ذات البین فتکون المفسدۃ فی عزلہ أکثر منھا فی بقائہ۔‘‘ (74) ’’علماء نے کہا ہے کہ(ظالم و فاسق )حکمران کے معزول نہ ہونے کا سبب اور اس کے خلاف خروج کی حرمت کی علت یہ ہے کہ اس قسم کے خروج سے فتنے جنم لیں گے اور مسلمانوں کا خون بہایا جائے گا اور مسلمانوں میں باہمی فساد پیدا ہو جائے گا۔پس حکمران کو معزول کرنے میں جو فساد ہے وہ اس کے باقی رہنے سے بڑھ کر ہے۔‘‘ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایسے خروج سے صبر بہتر ہے کہ جس سے مسلمانوں میں فتنہ و فساد ہو۔وہ لکھتے ہیں : ’’وأما لزوم طاعتھم وإن جاروا فلأنہ یترتب علی الخروج عن طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم۔‘‘ (75) ’’اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں ‘ پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے‘ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی اطاعت سے نکل جانے میں جو فساد و بگاڑ ہے وہ اس فساد سے کئی گنا زیادہ ہے جو ان کے ظلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔‘‘ ابن بطال رحمہ اللہ نے بھی عدم خروج کی یہی حکمت بیان فرمائی ہے: |