مسئلے میں وارد شدہ روایات بہت زیادہ ہیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے۔اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ حکمران فسق و فجور کی وجہ سے امامت سے معزول نہیں ہوتا۔‘‘ بعض اہل علم نے یہ سوال پیدا کیا کہ بعض سلف صالحین مثلاً حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بھی تو مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کیا اور ان کے بعد بھی بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں خروج ہوتے رہے تو اجماع کا دعویٰ کیسے ممکن رہا؟اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے کہ شروع میں اس مسئلے میں سلف صالحین میں اختلاف تھالیکن جب اہل علم نے بنوامیہ اور بنو عباس کے دور میں امت مسلمہ میں ہونے والے خروج کے مفاسد دیکھے تو بعد کے زمانوں میں ان کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج سداً للذریعہ حرا م ہے۔دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ بنو امیہ کے بعض حکمرانوں کے خلاف جو خروج تھا وہ مجرد فسق کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ان پر دین کو تبدیل کرنے اور کفر کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وقال جماھیر أہل السنۃ من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین لاینعزل بالفسق والظلم وتعطیل الحقوق ولا یخلع ولا یجوز الخروج علیہ بذلک بل یجب وعظہ وتخویفہ للأحادیث الواردۃ فی ذلک قال القاضی وقد ادعی أبوبکر بن مجاھد فی ھذا الإجماع وقد رد علیہ بعضھم ھذا بقیام الحسین والزبیر وأھل المدینۃ علی بنی أمیۃ وبقیام جماعۃ عظیمۃ من التابعین والصدر الأول علی الحجاج مع بن الأشعث۔۔۔وحجۃ الجمھور أن قیامھم علی الحجاج لیس بمجرد الفسق بل لما غیر من الشرع وظاھر من الکفر قال القاضی وقیل أن ھذا الخلاف کان أولا ثم حصل الإجماع علی منع الخروج علیھم۔‘‘(18) ’’جمہور اہل سنت یعنی فقہاء‘ محدثین اور متکلمین کا موقف یہ ہے کہ حکمران فسق و فجور یا ظلم یا حق تلفی کی بنا پر معزول نہیں ہوتا اور نہ ہی ان اسباب کی وجہ سے اسے |