Maktaba Wahhabi

117 - 264
جہالت مانع ہوگی۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی اکثریت احکام شریعہ سے جاہل بلکہ اجہل ہے ۔لہٰذا ان حالات میں اگر کسی حکمران کے منہ سے کوئی ایسا جملہ نکل جائے تو اسے پہلے تنبیہہ کی جائے ۔اللہ کا حکم اس پر واضح کیا جائے اور اس کے استہزاء پر اس کا جو دینی مقام(status)ہو گا وہ بھی مفتیان کرام کو واضح کرنا چاہیے ۔اس سب کے باوجود بھی اگر حکمران اپنے کفریہ فعل پر مُصر ہو تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ حکمران کسی تاویل کا سہارا تو نہیں لے رہا ہے اور اس تاویل کی وجہ سے اس شرعی حکم کو منسوخ یا مباح یا عارضی و وقتی حکم تو نہیں سمجھ رہا ہے۔اگر وہ کسی تاویل کا سہارا لے رہا ہے تو اس کی تاویل کا علمی جواب دیا جائے گا۔ حکمران کی تاویل کے علمی جواب کے بعد بھی اگر وہ حکمران کسی شرعی حکم کا استہزاء کرے یا اس کے مطابق فیصلہ نہ کرنے پر اصرار کرے تو اب جمیع مکاتب فکر کے اکابر علماء کی ایک جماعت اس پر کفر کا فتویٰ لگائے نہ کہ گلی گلی پھرنے والے مفتی حضرات یا جذباتی نوخیز نوجوان۔ اگر حکمران کی تکفیر پر جمیع مکاتب فکر کے علماء کا اتفاق نہ ہو تو پھر ہر عالم دین کو اپنی اجتہادی رائے کے مطابق فیصلہ دینے کا اختیار ہو گا لیکن ایسے حکمران کو قطعی کافر یا قطعی دائمی جہنمی کہنا جائزنہیں ہو گا کیونکہ اس حکمران کی تکفیر اب ایک اجتہادی اور اختلافی مسئلہ ہے اور اجتہادی و اختلافی مسائل میں عموماً علم ظنی حاصل ہوتا ہے۔پس حکمران کی تکفیر میں علماء کے اختلاف سے شبہ پیدا ہو گیا ہے اور شبہ کی وجہ سے علم ظن حاصل ہوا۔ اگر کسی حکمران نے کسی شرعی حکم کا مذاق اڑایا بھی ہے یا کسی غیر شرعی حکم کے مطابق قانون سازی کی بھی ہے تو اس کی تکفیر میں جہالت‘تاویل یا خوف مانع ہے یا نہیں ؟ تکفیر سے پہلے اس کو دیکھنا ہو گا۔علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے ایسے حکمران کی جہالت دور کریں ‘ اس کی تاویل باطل کا جواب دیں ‘ اس کو وعظ و نصیحت کریں ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیں اور اس شرعی حکم کے انکار کے نتائج و عواقب سے ڈرائیں اور اگر پھر بھی وہ حکمران اپنے کفر پر اڑا رہے تو ان بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اکابر علماء کااجتماعی و اتفاقی فتویٰ ہی اس حکمران کی قطعی تکفیر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تکفیر کی یہی وہ کڑی شرائط ہیں کہ جن کی وجہ سے بعض اہل علم مثلاً حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
Flag Counter