أجر علی اجتھادہ وخطؤہ مغفور۔‘‘ (10) ’’یہاں ایک اہم نکتے کو سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنا بعض اوقات ایک ایسا کفر ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے اور بعض اوقات یہ گناہ کبیرہ یا گناہ صغیرہ ہوتا ہے اور ان دو صورتوں میں اس کو مجازی کفر یا کفر اصغر کہیں گے اور اس کا فیصلہ حکمران کے حالات کے مطابق ہو گا۔اگر کسی حکمران کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا غیرواجب ہے یا اختیاری ہے یا اس نے کسی حکم شرعی کو تیقن کے ساتھ اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے اس کا مذاق اڑایاتو یہ تمام صورتیں کفر اکبر ہیں ۔اور اگر کسی حکمران نے کسی واقعے میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کو تو واجب سمجھا لیکن اس نے اس شرعی حکم کے ساتھ اس مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جبکہ وہ اس بات کا معترف بھی ہو کہ وہ اپنے اس عمل کی بنا پر سزا کا مستحق ہے تو ایسا حکمران گناہ گار ہے اور اس کے کفر کو مجازی کفر یا کفر اصغر کہیں گے۔اسی طرح جو حکمران اپنی مقدور بھر کوشش اور طاقت صرف کرنے کے باوجود اللہ کا حکم معلوم نہ کر سکا اور اپنے اجتہاد میں خطا کی بنا پر اللہ کے حکم کے مطابق اس نے فیصلہ نہ کیا تو یہ حکمران مجتہد مخطی ہے اور اسے اپنے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور اس کی خطا قابل معافی ہے۔‘‘ یہ واضح رہے کہ شیخ کے قول’’إن الحکم بما أنزل اللّٰہ غیر واجب‘ وأنہ مخیر فیہ‘‘سے مراد مکمل شریعت کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنا ہے ‘ کیونکہ بعض شرعی احکام میں تو اختیار خود شریعت نے دیا ہے ۔اباحت شرعی حکم ہی کی ایک قسم ہے اور کئی ایک شرعی احکام میں تخییر اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی طرف سے ابتداء اًموجود ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ’’أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم اللّٰہ‘‘ کے مطابق اہل سنت کے نزدیک شرعی احکام کا مذاق و استہزاء اس وقت ملت ِاسلامیہ سے خارج کرے گا جبکہ حکمران کو اس بات کا یقین ہو کہ جس کا وہ مذاق اڑا رہا ہے وہ ایک شرعی حکم ہے۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ حکمران کسی حکم شرعی کا مذاق اس بنا پر اڑا رہا ہوتا ہے کہ وہ اسے اللہ کا حکم نہیں سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ پس اس صورت میں حکمران کی تکفیر میں اس کی |