اس کے نزدیک یہ ’کفر عملی ‘ہے نہ کہ اعتقادی‘ اور ان علماء کے ہاں ایمان کی طرح کفر کے بھی کئی درجات ہیں جیسا کہ کفر دون کفر ہے۔ اور جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ ایمان‘ تصدیق کا نام ہے اور عمل ایمان کے مسمیٰ یعنی تعریف میں داخل نہیں ہے اور کفر ‘انکار کا نام ہے اور یہ دونوں کم یا زیادہ نہیں ہوتے تو انہوں نے کہا: یہ مجازی کفر ہے نہ کہ حقیقی‘ جبکہ حقیقی کفر وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے۔‘‘ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نے اس بحث کو بھی خوب اچھی طرح نکھارا ہے کہ ’حکم بغیر ما انزل اللّٰہ ‘ ہر صورت میں ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا نہیں ہوتا۔ امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی حکمران من جملہ شریعت اسلامیہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلے کرنے کو واجب قرار نہیں دیا ہے یا وہ شریعت اسلامیہ کو تیقن کے ساتھ شریعت اسلامیہ سمجھتے ہوئے اس کااستہزاء و مذاق اڑاتا ہو تو اس صورت میں وہ ایسے کفر کا مرتکب ہو گا کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اور اگر کوئی حکمران شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنے کو واجب سمجھتے ہوئے ‘ اس کے مطابق فیصلے نہ کرے تو وہ کافر حقیقی نہیں بلکہ مجازی یا عملی کافر ہے۔ اور اسی طرح وہ قاضی یا حکمران جو اپنے اجتہاد میں خطاکی بنیا د پر اللہ کے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو یہ مجتہد مخطی اور عند اللہ ماجور ہے۔امام صاحب لکھتے ہیں : ’’وھنا أمر یجب أن یتفطن لہ وھو : أن الحکم بغیر ماأنزل اللّٰہ قد یکون کفراینقل عن الملۃ وقد یکون معصیۃ کبیرۃ أو صغیرۃ ویکون کفرا: إمامجازیا وإما کفرا أصغر علی القولین المذکورین۔وذلک بحسب حال الحاکم: فإنہ إن اعتقد أن الحکم بما أنزل اللّٰہ غیر واجب‘ وأنہ مخیر فیہ‘ أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم(اللّٰہ ) فھذا کفر أکبر۔وإن اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللّٰہ وعلمہ فی ھذہ الواقعۃ وعدل عنہ مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبۃ‘ فھذا عاص ویسمی کفرا مجازیا أو کفرا أصغر۔ومن جھل حکم اللّٰہ فیھا مع بذل جھدہ واستفراغ وسعہ فی معرفۃ الحکم وأخطأ فھذا مخطی لہ |