اتفاقھم علی أن من سماہ اللّٰہ تعالی ورسولہ کافرا نسمیہ کافرا‘ إذ الممتنع أن یسمی اللّٰہ سبحانہ وتعالی الحاکم بغیر ماأنزل اللّٰہ کافرا‘ ویسمی رسولہ من تقدم ذکرہ کافرا ولا نطلق علیھما اسم ’الکافر‘۔ ولکن من قال: إن الإیمان قول وعمل یزید وینقص قال: ھو کفر عملی لا اعتقادی‘ والکفر عندہ علی مراتب‘ کفر دون کفر‘ کالإیمان عندہ۔ ومن قال: إن الإیمان ھو التصدیق ولایدخل العمل فی مسمی الإیمان ‘ والکفر ھو الجحود‘ ولا یزیدان ولا ینقصان قال: ھو کفر مجازی غیر حقیقی‘ إذ الکفر الحقیقی ھو الذی ینقل عن الملۃ۔‘‘ (9) ’’ جمیع اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ایسا کفر نہیں کرتا کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے کلی طور پر خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج کا قول ہے۔۔۔اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرتکب کبیرہ اپنے اس گناہ کبیرہ پراس وعید کا مستحق ہے جو نصوص میں وارد ہوئی ہے۔۔۔پھر اس اتفاق کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں باہمی اختلاف لفظی اختلاف ہے اور اس سے کوئی فساد پیدا نہیں ہوتا۔اہل سنت کا باہمی اختلاف اس میں ہے کہ کیا کفر کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً کفر دون کفر وغیرہ جیسا کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ایمان کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً ایمان دون ایمان؟اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ایمان کے ’مسمی‘ یعنی تعریف میں ان کا اختلاف ہے۔کیا ایمان قول و عمل کا نام ہے جو گھٹتا ہے اور بڑھتا ہے یا ایسا نہیں ہے؟اہل سنت کا اس بات میں بھی اتفاق ہے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے تو ہم بھی اسے کافر ہی کہیں گے کیونکہ یہ ناممکن امر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو کافر قرار دیں یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعض افعال کے مرتکبین کو کافر کہیں ‘ جیسا کہ پہلے احادیث گزر چکی ہیں ‘ تو ہم ان افعال کے مرتکبین پر لفظ کافر کا اطلاق نہ کریں ۔پس جس کا کہنا یہ ہے کہ ایمان قول و عمل کانام ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا ہے تو |