Maktaba Wahhabi

210 - 264
گوانتاناموبے جیل میں قید رہے تھے ۔ بعد ازاں امریکی حکام نے انہیں رہا کر دیا تھا۔مارچ ۲۰۰۳ء میں یہ رہا کیے گئے اور درمیان میں ایک ڈیڑھ سال روپوش رہے اور اکتوبر ۲۰۰۴ء کے قریب ایک دم سے میڈیا میں ان کے بیانات آنے شروع ہو گئے۔ عبداللہ محسود کو میڈیا میں آنے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ ان کانام ہی میڈیا فرینڈلی کمانڈر کے طور پر معروف ہو گیا تھا۔ دو چینی انجینئرز کو اغواء کرنے کی وجہ سے ۲۰۰۷ء میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے شہید کر دیاگیا۔ عبد اللہ محسود کے علاوہ ایک اور جنگجو بیت اللہ محسود بھی مقامی طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔بیت اللہ محسود ایک سنجیدہ مزاج اور فہم و فراست رکھنے والے کمانڈر ہیں ۔فروری ۲۰۰۵ء میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قبائلیوں کا حکومت پاکستان سے معاہدہ ہوا۔ بیت اللہ محسودنے عبد اللہ محسود کو بھی اس معاہدے میں شریک کرنے کی درخواست کی لیکن حکومت پاکستان نے چینی انجینئرز کے اغواء کے معاملے کی وجہ سے عبداللہ محسود کو اس معاہدے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ جولائی ۲۰۰۷ء میں حکومت پاکستان نے لال مسجد پر حملہ کر تے ہوئے بیسیوں طلباء اورسینکڑوں بچیوں کو شہید کر دیا‘ جس کے رد عمل میں بیت اللہ محسود نے افواج پاکستان پر خودکش حملوں کی دھمکیاں دیں اور معاہدہ توڑنے کا اعلان کیا۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں سات قبائلی ایجنسیوں شمالی وزیرستان ‘ جنوبی وزیرستان‘ کرم ایجنسی‘ باجوڑ ایجنسی‘ خیبر ایجنسی‘ اورکزئی ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے علاوہ مالاکنڈ ڈویژن‘ سوات اور درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے بیس کے قریب طالبان رہنماؤں کا اجلاس ہوااور بیت اللہ محسود کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان ‘ کا قیام عمل میں آیا۔چالیس رکنی شوریٰ بھی مقرر کی گئی اور مولوی عمر کو تحریک کا ترجمان بنایا گیا۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں حکومت پاکستان نے دوبارہ محسود قبائل کے خلاف آپریشن شروع کر دیاجس کی وجہ سے ہزاروں افراد نے وزیرستان علاقے سے نقل مکانی شروع کر دی۔ ۶فروری ۲۰۰۸ء کو ’تحریک طالبان پاکستان‘ نے سوات سے وزیرستان تک افواج ِ پاکستان کے خلاف کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔ شمالی وزیرستان کی طرف پیش قدمی افواج پاکستان کی طرف سے ۲۰۰۲ء میں ہوئی
Flag Counter