Maktaba Wahhabi

221 - 264
ہے۔جب دار الحرب ہے تو قتال لازم ہے۔ دارالحرب اور دارالاسلام کی اصطلاحات فقہائے اسلام نے اپنے زمانے میں موجود متنوع ریاستوں کی ایک عرفی حیثیت واضح کرنے کے لیے وضع کی تھیں ۔ آج ہم اپنے زمانے کے اعتبار سے متنوع جغرافیائی حدود کو مختلف نام دیں گے۔آج جس دنیا میں ہم آباد ہیں وہ امر واقعہ میں دارالحرب‘ دارالاسلام‘ دارالکفر‘دار المسلمین‘ دارالعہد‘ دارالصبر‘ دارالامن اوردار الہجرت وغیرہ جیسی تقسیم رکھتی ہے۔دارالحرب سے مراد وہ مسلمان ممالک ہیں جہاں کفار نے جبری قبضہ کر رکھا ہے اور مقامی مسلمان ان کفارکے خلاف جنگ کر رہے ہیں جیسا کہ عراق‘افغانستان‘ کشمیر اور فلسطین وغیرہ ہیں ۔دارالاسلام سے مراد وہ علاقے ہیں کہ جہاں اللہ کی حاکمیت بالفعل نافذ ہو جیسا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی ریاست تھی یا پھر موجودہ سعودی عرب کسی درجے میں اس کی مثال بن سکتا ہے۔دارالکفر سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں کفار کی اکثریت ہے اوراختیار و اقتدار بھی انہی کے پاس ہو۔ دارالمسلمین سے مراد وہ ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ مقتدر طبقہ بھی مسلمان ہے لیکن اسلامی نظام اپنی مکمل شکل میں بالفعل نافذ نہیں ہے جیسا کہ پاکستان‘ مصر‘ ترکی وغیرہ ہیں ۔دار العہد سے مراد وہ سیکولر یا کافر ریاستیں ہیں کہ جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طور پرآباد ہیں اور ان کا ریاست سے یہ عہد ہے کہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور جواباً ریاست بھی ان کے حقوق شہریت اداکرے گی جیسا کہ انڈیا‘امریکہ ‘ برطانیہ اور یورپین ممالک میں بسنے والے مسلمان ہیں ۔اس سے مراد وہ سیکولر یا کافر ریاستیں بھی ہیں کہ جن کے ساتھ مسلمان ریاستوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہو۔دار الصبر سے مراد مسلمانوں کے وہ علاقے ہیں کہ جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہو اور وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہو اور مسلمان اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ وہ کافر حکمرانوں سے جنگ کر سکیں جیسا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا حال تھا۔ان علاقوں میں حکمرانوں سے جنگ کی بجائے پُر امن ذرائع سے آزادی کی کوششیں جاری رکھی جاتی ہیں ۔ دارالامن سے مراد وہ ممالک ہیں جو کہ پوری دنیا میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور کسی بھی قوم سے لڑائی نہیں چاہتے یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے اپنی فوج بھی نہیں بنائی مثلا سوئٹزر لینڈ اور جاپان وغیرہ۔دار الہجرت سے
Flag Counter