Maktaba Wahhabi

222 - 264
مسلمانوں کے وہ علاقے مراد ہیں کہ جن کی طرف مسلمان اپنے علاقوں میں کفار کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کریں جیسا کہ انڈیا اور افغانستان سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی وغیر ہ ۔ 3۔ ایک شبہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ افغانستان پر امریکہ کاحملہ ہوا‘اب افغانیوں پرقتال فرض ہے۔ اگر وہ قتال کے لیے کافی نہ ہوں تو ساتھ والی ریاستوں کے باشندوں پر قتال فرض ہو جائے گا۔ اگر وہ بھی کفایت نہ کریں تو یہ فرض پھیلتے پھیلتے تمام امت مسلمہ کو شامل ہو جائے گا۔ جہاد وقتال فرض کفایہ ہے اور کوئی بھی فرض کفایہ اگرچہ امت کے بعض طبقوں کی حد تک فرض عین ہو بھی جاتا ہے لیکن تمام امت پر فرض عین کبھی بھی نہیں ہوتا۔اس کی سادہ سی مثال نماز جنازہ ہے۔مثلاً پشاورمیں کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے اور اگر پشاور کے علماء یا مسلمان اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھتے تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ افریقہ یا یورپ میں بیٹھا ہوا مسلمان بھی گناہ گار ہو گا اور یہ فرض عدم ادائیگی کی صورت میں پھیلتا پھیلتا امت کے تمام افراد پر فرض عین ہو جائے گا۔یہ بات بالکل درست ہے کہ فرض کفایہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں یہ فرض الأقرب فالأقرب کے اصول کے تحت امت میں آگے منتقل ہو گا لیکن اس منتقلی میں بنیادی شرط اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت و اسباب ذرائع ہیں ۔ اس لیے اگر افغانی امریکہ کے بالمقابل اپنے ملک کادفاع نہیں کر سکتے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے مقتدر طبقہ پر یہ جہاد وقتال فرض عین ہو گا نہ کہ عامۃ الناس پر ‘کیونکہ اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت مقتدر طبقہ یا سکیورٹی فورسز میں ہے نہ کہ عوام کے پاس۔ ہم یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ آج جہاد و قتال کی کامیابی کا دارومدار صرف عددی قوت پر منحصر نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور جدید آلات حرب وضرب بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔ جب عامۃ الناس کے پاس نہ تو جہاد کی اہلیت ہے اور نہ اس کے اسباب و ذرائع تو ان پریہ جہاد کیسے فرض عین ہو سکتا ہے ؟سورۃ توبہ میں تو یہ ہے کہ اہلیت اور اسباب وذرائع نہ ہونے کے سبب سے غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ] کی ایک جماعت کو اُس جہاد سے رخصت دے دی گئی کہ جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتال کے لیے نفیر عام تھی۔ اسباب و ذرائع سے مراد افغانستان ‘عراق یا
Flag Counter