ہے۔(محمد بن عبد الوھاب الشیخ، کشف الشبھات، وزارۃ الشؤون الإسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والإرشاد، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، ۱۴۱۸ھ، ص ۳۳) ۶۵۔ابن أبی العز الحنفی، شرح الطحاویۃ فی العقیدۃ السلفیۃ، المکتب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ الرابعۃ، ۱۳۹۱ھ، ص ۷۷ ۶۶۔أیضاً : ص ۱۷۹ ۶۷۔تسھیل العقیدۃ الإسلامیۃ : ص ۲۹۳۔۲۹۷ ۶۸۔المائدۃ : ۵ : ۴۴ ۶۹۔وھبۃ الزحیلی الدکتور، اصول الفقہ الإسلامی، دار الفکر، دمشق، الطبعۃ الأولی،۱۹۸۶ء، ص۲۰۴ ۷۰۔یہی وجہ ہے کہ بعض شرکیہ وکفریہ اعمال کی بنیاد پر شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی تکفیر سے معروف حنفی فقیہہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے اختلاف کیا ہے۔ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مطلب فی اتباع عبد الوھاب الخوارج فی زماننا۔۔۔کما وقع فی زماننا فی أتباع عبد الوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وانوا ینتحلون مذھب الحنابلۃ لکنھم اعتقدوا أنھم ھم المسلمون وأن من خالف اعتقادھم مشرکون واستباحوا بذلک قتل أھل السنۃ وقتل علمائھم حتی کسر اللّٰہ شوکتھم وخرب بلادھم وظفر بھم عساکر المسلمین عام ثلاث وثلاثین ومائتین وألف۔‘‘(رد المحتار علی در المختار،کتاب الجھاد،باب البغاۃ) یہاں یہ حوالہ نقل کرنے سے ہمارا مقصودیہ نہیں ہے کہ ہمیں ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کے اس تبصرہ سے اتفاق ہے بلکہ مقصود کلام صرف یہی ہے کہ جہاں تکفیر کے مسئلہ میں تفصیل اور تطبیق(application)ہو گی وہاں افتراق و انتشارجنم لے گا اور امت کئی حصوں میں منقسم ہو کر باہم دست وگریبان ہو جائے گی۔ ۷۱۔قادیانی جو غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں ، ان کی تکفیر پر جمیع مسالک و مکاتب فکر کا اتفاق ہے لہٰذا ان کی تکفیر قطعی طور ثابت ہے۔ |