۲۹۔محمد بن إبراھیم الشیخ، رسالۃ تحکیم القوانین، بدون الناشر، بدون سنۃ الطبع، ص ۲۔۳ ۳۰۔ابن أبی العز الحنفی، شرح الطحاویۃ فی العقیدۃ السلفیۃ، الرئاسۃ العامۃ لإدارات البحوث العلمیۃ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد، المملکۃ السعودیۃ العربیۃ، ص ۳۰۴۔۳۰۵ ۳۱۔سعید بن علی بن وھف القحطانی، قضیۃ التکفیر بین أھل السنۃ وفرق الضلال فی ضوء الکتاب والسنۃ، رئاسۃ إدارات البحوث العلمیۃ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد، الریاض، ص ۷۳ ۳۲۔رسالۃ تحکیم القوانین : ص۳ ۳۳۔شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اس قسم کے عملی کفر کو اعتقادی کفر کی ایک قسم قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا حکمران اور جج وضعی قوانین کو عملاًمصدر شریعت کا مقام دے رہا ہوتا ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس اصول کے مطابق تمام مسلمان ممالک کے حکمران‘قانون وضع کرنے والی اسمبلیاں ‘انہیں قانون وضع کرنے کا حق دینے والے عوام‘ ان قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدلیہ اور ججز‘ ان قوانین کا دفاع کرنے والے وکلا‘ ان قوانین اور دساتیر پر اعتماد کا اظہار کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور ان قوانین کے مطابق عدالتوں سے فیصلے کروانے اور ان فیصلوں پر رضامندی کا اظہار کرنے والے عوام الناس بھی کافر قرار پاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان مسلمان ممالک سے ہجرت کرنے کو فرض قرار دیا ہے جن میں وضعی قانون کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں ۔ قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ تکفیر کے قائلین شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس فتویٰ کو نقل نہیں کرتے۔ شیخ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’ھل تجب الھجرۃ من بلاد المسلمین التی یحکم فیھا بالقانون ؟ فأجاب : البلد التی یحکم فیھا بالقانون لیست بلد إسلام تجب الھجرۃ منھا۔‘‘ (محمد بن إبراھیم الشیخ، فتاوی ورسائل، ۶؍۱۸۸) ’’ سوال: کیا آپ ان ممالک اسلامیہ سے ہجرت کو فرض سمجھتے ہیں کہ جہاں قوانین(انسانی) کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں ؟ جواب: جس ملک میں قوانین(انسانی) کے |