کریں تو ہمارے نزدیک یہ ایک فتنہ ہے‘ جس سے امت مسلمہ کو بچانا چاہیے۔ ہاں ، اگر درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء کی کوئی جماعت ایسی معین تکفیر کرے تو وہ اس کے اہل بھی ہیں اور مستحق بھی۔ لیکن علماء کی اس جماعت سے معین کی تکفیر میں کسی دوسرے صاحب علم و فضل کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔(70) معین کی تکفیر چونکہ ایک اجتہادی معاملہ ہے اور اجتہاد میں قطعیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ امت کا اس پر اجماع ہو جائے اور جب تک معین کی تکفیر پر اجماع نہ ہو اس وقت تک درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی معین کی تکفیر علم ظن یا مطلقاً علم کا فائدہ دے گی لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تکفیر معین بھی ’عند العلماء‘ ہو گی اور ’عند اللہ ‘ وہ معین شخص یا گروہ کافر ہے یا نہیں ‘ اس کا تعین اللہ کے سوا کسی کو کرنے کا اختیار نہیں ہے اور یہ قیامت ہی کے دن واضح ہو گا۔(71) ہمارے ہاں بعض طبقات میں معروف ہے کہ شیعہ کافر ہے ۔ شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے شیعہ کے تقریباً ۳۲ فرقوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ہر ایک کے عقائد اور نظریات دوسروں سے مختلف ہیں ۔ ان میں سے بعض اہل سنت کے قریب ہیں مثلاً زیدیہ۔ اسی طرح شیعہ کے علماء اور عوام کے عقائد میں بھی فرق ہے۔ پس اہل علم کے نزدیک یہ کہا جا سکتا ہے کہ : ٭ جو شیعہ قرآن کو اللہ کی مکمل کتاب نہیں مانتاوہ کافر ہے۔ یہ تکفیر درست ہے لیکن یہ غیر معین کی تکفیر ہے ۔ یعنی اصولوں کی روشنی میں غیر معین کی تکفیر کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے: ٭ جوعدلیہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی اور اپنے اس فعل کو حلال سمجھتی ہے ‘ وہ کافر ہے۔ یہ بھی غیر معین کی تکفیر ہے اور یہ بھی کی جا سکتی ہے لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستان کی عدلیہ کافر ہے تو یہ معین جماعت کی تکفیر ہو جائے گی جو درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی جماعت کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ علماء کی جماعت جب کسی معین شخص یا جماعتکی تکفیر کرتی ہے تو اس کے عقیدے کے بارے مکمل تحقیق کرتی ہے۔ شروط و موانع تکفیر کا لحاظ رکھتی ہے۔ ظاہر و تاویل کا فرق رکھتی ہے وغیرہ ذلک۔مثلاً کبار سعودی اہل علم کے نزدیک یہ کہا جا سکتا ہے |