وہ عملی ومجازی کافر ہوگا اور بعض میں حقیقی ہو گا۔ پس اگر کوئی شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والے حاکم یا جج کو کافر کہے اور اس کی مراد عملی و مجازی کفر ہو تو ایسا کہنا جائز ہو گا لیکن عرف میں چونکہ کافر کے لفظ سے کفر حقیقی مراد ہوتا ہے لہٰذا قائل کو یہ وضاحت ضرور کرنی چاہیے کہ اس کی مراد مجازی و عملی کفر ہے۔ جہاں تک تکفیر معین کا معاملہ ہے تو اسے نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے تکفیر کے مسئلہ میں ٹھوکر کھائی ہے۔ مثلاً معین کی تکفیر تین قسم کی ہو سکتی ہیں : 1۔ فرد کی تکفیر 2۔ نوع کی تکفیر 3۔ جنس کی تکفیر عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ معین کی تکفیر سے مراد محض فرد واحد کی تکفیر ہے حالانکہ معین کی تکفیر میں معین نوع یا معین جنس یا معین جماعت یامعین گروہ کی تکفیر بھی شامل ہے۔ اصول فقہ میں ایک اصطلاح ’خاص‘ کی ہے جس کی اپنے معنی و مفہوم پر دلالت قطعی ہوتی ہے اور خاص کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں : 1۔ خاص فردی 2۔ خاص نوعی 3۔ خاص جنسی(69) پس معین کی تکفیر میں شخص‘ جماعت‘ ادارہ یا گروہ وغیرہ بھی شامل ہے جیسا کہ اوپر شیخ عبداللہ بن عبد العزیز جبرین کا قول اس بارے گزر چکا ہے ۔ لہٰذامعین کی تکفیر کی مثال یوں ہوگی: ٭ فرد واحد کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ علامہ طالب جوہری یاپروفیسرطاہر القادری کافر ہیں جیسا کہ بعض معاصر طبقات ان حضرات کی تکفیر کرتے ہیں ۔ ٭ یا معین جماعت اور گروہ کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ شیعہ یا ہماری پارلیمنٹ یا پاکستانی حکمران یا ہماری عدلیہ یا افواج پاکستان کافر ہیں ۔ اگر ایسی تکفیر عوام الناس یا گلی گلی پھرنے والے مفتی یا نام نہاد مفکرین و مصلحین |