Maktaba Wahhabi

61 - 264
جماعت یا معین ادارے وغیرہ پر کفر کا حکم وہی لگا سکتے ہیں جو راسخون فی العلم ہیں کیونکہ اس قسم کی معین تکفیر میں دو اعتبارات سے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے:اس بات کو معلوم کرنا کہ معین مکلف سے جو قول یا فعل صادر ہوا ہے وہ کفر اکبر میں داخل ہے یا نہیں ؟اور دوسرا اس پہلو سے کہ اس صحیح حکم کی معرفت حاصل کرنا جس کا اس مکلف پر اطلاق کرنا ہے اور اس بات کو معلوم کرنا کہ اس مکلف پر کفر کا حکم جاری کرنے کے جمیع اسباب پائے جاتے ہیں اور اس کی تکفیر میں جمیع موانع ختم ہو گئے ہیں یا نہیں ؟۔۔۔اسی طرح عامۃ الناس اور چھوٹے درجے کے کسی مذہب کی طرف منسوب دینی طلبا کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان یا مسلمانوں کی معین جماعت یا مسلمانوں میں سے متعین لوگوں کی تکفیر کریں یہاں تک کہ وہ اس بارے اپنے علماء کی طرف رجوع نہ کرلیں ۔ اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیری مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر تکفیر کے مسئلے میں گفتگو ان کے قلیل علم کی وجہ سے حرام ہے۔‘‘ تکفیر غیر معین کی مثال یوں سمجھیں کہ آپ کہتے ہیں : ٭ جوبھی مُردوں سے استغاثہ کرتا ہے ‘ وہ مشرک ہے۔ ٭ جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ‘ وہ کافر ہے۔ ایسی تکفیر جائز ہے اور ہر کوئی کر سکتا ہے بلکہ ایسی تکفیر تو ہر وہ شخص کر رہا ہوتا ہے جو قرآن کی تلاوت یا سنت کا مطالعہ کر رہا ہو۔ مثال کے طور پر جب ایک شخص قرآن کی آیت﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾(68) کا مطالعہ کرے گا تو وہ ایک اعتبار سے اللہ کے کلام کی تلاوت کے ساتھ تکفیربھی کر رہا ہوتا ہے۔سلفی علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ نے اس آیت کو مطلق بیان کیا ہے لہٰذا اس آیت کا مطلق معنی و مفہوم یہی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو وہ کافر ہے۔ اب بعض صورتوں میں عملی اور مجازی کافر ہوگا یعنی ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوگا اور بعض صورتوں میں وہ حقیقی کافر ہوگا یعنی ملت اسلامیہ سے خارج ہو گا۔ پس کافر تو وہ ہے لیکن یہ تعین کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ وہ مجازی و عملی کافر ہے یا حقیقی کافر ۔شریعت کی بعض دوسری نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں
Flag Counter