Maktaba Wahhabi

60 - 264
کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ سلفی علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہوں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عامۃ الناس کے لیے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے۔ شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ولھذا ینبغی للمسلم أن لا یتعجل فی الحکم علی الشخص المعین أو الجماعۃ المعینۃ بالکفر حتی یتأکد من وجود جمیع شروط الحکم علیہ بالکفر وانتفاء جمیع موانع التکفیر فی حقہ وھذا یجعل مسألۃ التکفیر المعین من مسائل الاجتھاد التی لا یحکم فیھا بالکفر علی شخص أو جماعۃ أو غیرھم من المعینین إلا أھل العلم الراسخون فیہ لأنہ یحتاج إلی اجتھاد من وجھین: الأول معرفۃ ھذا القول أو الفعل الذی صدر من ھذا المکلف مما یدخل فی أنواع الکفر الأکبر أو لا؟ والثانی: معرفۃ الحکم الصحیح الذی یحکم بہ علی ھذا المکلف وھل وجدت جمیع أسباب الحکم علیہ بالکفر وانتفت جمیع الموانع من تکفیرہ أم لا۔۔۔کما أنہ یحرم علی العامۃ وصغار طلاب العلم أن یحکموا بالکفر علی مسلم أو علی جماعۃ معینۃ من المسلمین أو علی أناس معینین من المسلمین ینتسبون إلی مذھب معین دون الرجوع فی ذلک إلی العلماء کما أنہ یجب علی مسلم أن یجتنب مجالسۃ الذین یتکلمون فی مسائل التکفیر وھم ممن یحرم علیھم ذلک لقلۃ علمھم۔‘‘ (67) ’’اس لیے مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ کسی معین شخص یا معین جماعت کی تکفیر میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اس معین شخص یا جماعت میں کفر کا حکم لگانے کے لیے جمیع شروط موجود ہوں اور تکفیر کے وجود میں تمام موانع ختم ہو جائیں ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکفیر معین کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور کسی معین شخص یا
Flag Counter