Maktaba Wahhabi

239 - 264
کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ پاکستان کے حکمران اس وقت کے علماء کی نظر میں مسلمان تھے۔ہم تو کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے حکمران کافر ہوتے توپھر بھی علماء اسلامی ریاست کے قیام کے لیے دوسرے منہج ہی کواختیار کرتے کیونکہ عصر حاضر میں ریاست اور عوام الناس میں طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے پہلا منہج تقریباً ناقابل عمل بن چکا ہے۔پس ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد علماء نے یہ محسوس کر لیاتھا کہ اس خطہ ارضی میں مسلمانوں کی حکومت دوبارہ بحال کرنے کے لیے عسکری طریقہ کار ممکن نہیں رہا تو انہوں نے اگلی ایک صدی(۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) تک مسلمانوں کی آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے حصول کی خاطر اپنی جدوجہد کا رخ آئینی ‘ قانونی اور سیاسی طریقہ کار کی طرف پھیر دیا۔لال مسجد کے واقعے کے بعد علماء کے بیانات سے ایک دفعہ پھر یہ بحث و اضح ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے حق میں نفاذ شریعت کے لیے پُرامن جدوجہد ہی کو اصل منہج قرار دیاہے۔اگرچہ علماء وہ پُرامن جدوجہد کر رہے ہیں یا نہیں ‘ یہ ایک سوالیہ نشان ضرورباقی رہ جاتا ہے! ہمارے مخلص مذہبی طبقے کاالمیہ یہ ہے کہ نفاذ شریعت یا قیام خلافت کے لیے ان کے ذہن میں کوئی منہج ہے تو وہی خروج یا بغاوت کا طریقہ کار ہے جو فی زمانہ ریاست اور کسی عوامی جماعت کے مابین بہت زیادہ عدم توازن کی وجہ سے ناقابل عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ناممکن بھی ہو چکا ہے۔اور اس منہج کے تیزی سے پھیلنے کا بنیادی سبب ہمارے حکمرانوں کا حد سے بڑھتے ہوئے ظلم کا رد عمل ہے۔ اس وقت امت مسلمہ کو امریکہ اور اس کے حواریوں سے یہ جنگ جیتنے کے لیے جسم و جان سے زیادہ فکر ونظر کے استعمال کی ضرورت ہے۔ نفاذ شریعت کے لیے ایک طویل جدو جہد کے بعد مولانا صوفی محمدصاحب کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی تھی کہ پاکستان میں عسکریت یا خروج کے رستے کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔معاصر جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر لال مسجد کے واقعے میں بھی ایک پُرامن احتجاجی تحریک کی صورت میں نفاذ شریعت کے مطالبے کوآگے بڑھایا جاتا تو بہت بہتر تھا۔ علمائے پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مالاکنڈ میں شریعت کے نفاذ کے تحفظ اور سارے ملک میں نظام عدل کے قیام کی خاطر ایک پُرامن احتجاجی تحریک کی بنیاد
Flag Counter