کبھی زرداری‘ کبھی الطاف حسین اور کبھی جنرل کیانی یہ الزام دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ تحریک لوگوں پر اسلام کے نام پرجبراً اپنے انتہا پسندانہ نظریات مسلط کرناچاہتی ہے۔ہم یہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعدسے اب تک تقریباً ساٹھ سال کے طویل عرصے میں چند افراد پر مشتمل حکومتی ٹولے یا مارشل لاء ڈکٹیٹروں نے ملک کے مذہبی حلقوں اور جماعتوں کے ساتھ کیاسلوک کیا ہے؟آئین و قانون کے نام پرعوام الناس پران کی مرضی کے خلاف اپنے سیکولر نظریات کو کبھی ’انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء‘ کے نام پراور کبھی’ تحفظ حقوق نسواں بل ‘کی آڑ میں جبراًنافذ کرنایا بے گناہ پاکستانی عوام کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے ہاتھوں چند ڈالروں کے عوض بیچ دینے کو کیاآزادی ومساوات کا نام دیا جائے؟بیروزگاری کے عفریت‘ معاشی بدحالی‘ فقر و فاقہ کے نتیجے میں خود کشیاں ‘غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ‘ جرائم کی کثرت‘ عدالتوں میں انصاف کا بحران‘ پولیس اور لینڈمافیا کا ظلم و ستم‘امن و امان کی تباہی‘ انٹر نیٹ اور کیبل کی صورت میں عریانی و فحاشی کا سیلاب‘ وڈیرہ شاہی‘ جاگیردارانہ نظام ‘ کرپشن‘ رشوت خوری‘ چوری و ڈکیتی‘ زناو گینگ ریپ‘ عورتوں کو زندہ دفن کر دینا‘غیر انسانی طبقاتی تقسیم‘ منشیات و شراب کی سرعام فروخت‘گلی کوچوں اور سڑکوں پر ڈاکوؤں کی قتل و غارت اور عامۃ الناس پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے والی لسانی و علاقائی تنظیمیں ‘ کیا پاکستان کے عوام یہ سب کچھ چاہتے ہیں ؟ اگرنہیں تو اس کو ان پر مسلط کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟حکومت کا ظالمانہ اور کرپشن پر مبنی ناقص نظام یا مذہبی تحریکیں ؟پاکستانی معاشرے پر ان گندگیوں کو کس نے جبراً مسلط کیا ہے؟حکومتوں نے یا مدارس اسلامیہ نے؟ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذ شریعت یاقیام عدل اجتماعی یا ظالم حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے حوالے سے مذہبی طبقے اپنی جدوجہد کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو مناہج میں تقسیم ہو گئے ہیں ۔ایک منہج تو عسکری ہے جو حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کاثمر ہے اور دوسر ا منہج اس مقصد کے حصول کی خاطر ہر اس جدوجہد پر مشتمل ہے جو پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو۔پاکستان کے قیام کے فوراً بعد علماء اور دینی تحریکوں نے نفاذ شریعت کے لیے دوسرے منہج کوہی اختیار کیا۔بعض اہل علم کے نزدیک اس طریقہ کار کو اختیار |