اور دین ِحق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں ۔‘‘ لیکن ایسا ظلم جو کہ متعدی ہویعنی جس کے اثرات صرف انسان کی اپنی ذات تک محدودنہ ہوں بلکہ عامۃ الناس بھی اس کے ظلم سے متاثر ہو رہے ہوں تو ایسے شخص کے خلاف جہاد وقتال ہو گا۔ قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک کافر یا مشرک کی حکومت اللہ تعالیٰ کبھی بھی برداشت نہیں کرتے کیونکہ جہاں بھی کافریا مشرک کی حکومت ہو گی وہاں ظلم متعدی ہو گا اور عوام الناس اس ظلم سے متاثر ہوں گے۔ اس لیے اہل کتاب کے انفرادی کفر وشرک کو برداشت کیا گیا ہے لیکن مذکورہ بالاآیت میں ان کی ذلت و رسوائی اور حکومت کے خاتمے کو قتال کی غایت وانتہا قرار دیا گیا ہے ۔یہاں اس آیت میں اعطائے جزیہ اور اہل کتاب کی ذلت کو قتال کی غایت قرار دیاگیا ہے تو ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فتنے کے خاتمے اور اطاعت کا صرف اللہ ہی کے لیے ہو جانے کو قتال کا منتہائے مقصود بیان کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ﴾ (10) ’’اور ان(مشرکین) سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اجتماعی کفر(یعنی کفر کی حکومت) اور اجتماعی شرک(یعنی شرک کی حکومت ) کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی حکومت میں ہمیشہ ظلم ہوتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی ایسے کفار سے قتال کا حکم دیا ہے کہ جن کا ظلم متعدی ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا﴾ (11) ’’(اے مسلمانو!)اور تمہیں کیاہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے یہ کہہ رہے ہیں :اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکا ل کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو ہمارے لیے اپنی طرف سے |