سے بھی قتال ہو گا جیسا کہ ارشاد باری ہے : ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْمبَغَتْ اِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ﴾(7) ’’اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر(صلح کے بعد) ان میں ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب اس سے قتال کرو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ اسی طرح اگر کافر‘ظالم نہ ہو تو اس کے ساتھ قتال نہیں ہو گابلکہ ایسے کافروں کے ساتھ حسن سلوک بھی جائز ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾ (8) ’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان کافروں سے حسن سلوک یا انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا قتال صرف ان کفار اور مشرکین سے ہے جوکہ ظلم کے مرتکب ہوں ۔اب ظلم کئی طرح کا ہوتاہے۔ ایک ظلم وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہوتا ہے جیسا کسی شخص کا کافر یا مشرک ہونابھی ایک ظلم ہے۔ لیکن ایسا ظلم جو کہ کسی انسان کے اپنے نفس تک محدود رہے اور متعدی نہ ہو تو اس ظلم کے خلاف جہاد وقتال نہیں ہے بلکہ اسلام ایسے ظلم کو برداشت کرتا ہے جیساکہ یہود و نصاریٰ کے صریح کفر و شرک کے باوجود اللہ نے انہیں زندہ رہنے کی اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰب حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّد وَّہُمْ صَاغِرُوْن﴾(9) ’’تم یہود و نصاریٰ سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یوم ِآخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو |