ایک ولی مقرر کر اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک مددگار بنا۔‘‘ ایک اور جگہ قرآن میں ایسے کفار سے دوستی اور حسن سلوک کر نے سے بھی منع فرمایا گیا ہے کہ جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ ﴾ (12) ’’سوا اس کے نہیں اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر(تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں انہیں فقہا ئے اسلام نے دو طرح سے تقسیم کیا ہے: ایک حسن لذاتہ اور دوسراحسن لغیرہ۔حسن لذاتہ سے مراد ایسے احکامات ہیں جو کہ فی نفسہٖ اسلام میں مطلوب ہیں جبکہ حسن لغیرہ ان احکامات کو کہتے ہیں جو فی نفسہٖ مطلوب نہ ہوں ۔(13)اسلام نے لڑائی جھگڑے کو فی نفسہٖ ناپسند قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا اللّٰہ العافیۃ فإذا لقیتموھم فاصبروا)) (14) ’’ دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہو۔ پس اگر تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو پھر ڈٹ جاؤ۔‘‘ اسلام نے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے قتال کو فرض قرار دیا ہے اور وہ ظلم کا خاتمہ اور عدل وانصاف کا بول بالا ہے۔ لہٰذا قتال حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ ظلم کے خاتمے کے لیے انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا۔ اور بالفرض جس مقصد کے لیے جہادو قتال کو جائز کہا گیا ہے اگر وہ مقصود ہی پور انہ ہو رہا ہو اور جہاد و قتال سے ظلم ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہو تو ہمارے نزدیک یہ جہاد و قتال جائز نہیں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جہاد و قتال ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہے نہ کہ ظلم بڑھانے کے لیے۔ پس جہاد وقتال میں ان مقاصد شریعت کے حصول پر بھی بھرپور نظر رکھنی چاہیے کہ جن کے تحت اس عمل کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔ |