کی جنگ میں اعلائے کلمۃ اللہ کے مقصد سے لڑتے ہوئے قتل ہوئے ‘ہماری نظر میں وہ شہید ہیں اور عند اللہ ماجور ہیں ۔ لیکن ہماری بحث یہ ہے کہ کیا ہمیں آنکھیں بند کر کے اور نتائج سے غافل ہو کر اتنی قربانیاں دیتے رہنا چاہیے یا پھر ہمیں مکالمہ ومباحثہ کے ساتھ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے اپنے منہج کو درست کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم دروازہ کھولنے کے لیے زور لگا رہے ہیں لیکن یہ زور اس رخ پر ہے کہ جس رخ پر دروازہ بند ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے اور نہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاد ترک کر دیں ۔ جہاد تو مسلمان پر ہر حال میں فرض ہے۔ ہماری بحث یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنے جہاد کے رخ کو صحیح سمت ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاد ہونا چاہیے‘ اس میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن کیسے اور کس رخ پر‘ اس میں ہمارا اختلاف ہے ۔ ہمارے نزدیک عصرحاضر میں جہاد کا صحیح منہج اور رخ کیا ہے‘ وہ ہم نے اس کتاب کے آخری باب میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ 6۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اسے ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ریاستی سطح پر جہاد ہو۔کشمیر ہو یا افغانستان‘عراق ہو یا فلسطین ‘اگرمسلمان ریاستیں اعلانیہ جہاد کرتیں تو آج ان مقبوضہ علاقوں میں ہمیں کسی قسم کا ظلم و ستم نظر نہ آتا۔جن کے جہاد سے امت مسلمہ کے مسائل کا حل ممکن ہے انہیں تو اس طرف توجہ نہیں دلائی جاتی بلکہ سا را زور اس بات پر صرف ہوتاہے کہ عامۃ الناس پر کسی نہ کسی طرح اس کو فرض عین قرار دیا جائے۔دوسری بات یہ ہے کہ آج دنیا میں تقریباً تمام مسلمان ریاستوں میں کرپٹ اور ظالم حکمران مسلط ہیں ۔ اگرکوئی شخص ذاتی طور یہ محسوس کرتا ہے کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں لہٰذا اسے قاتل کو اپنے طور پر قتل کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد کر سکے تو ہم اسے یہی مشورہ دیں گے کہ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے۔ تمہارے کرنے کااصل کام خود سے شریعت کا نفاذ نہیں ہے بلکہ اسے شریعت کے نفاذ پر مجبور کرنا ہے جس کے پاس اس کے نفاذ کی قوت اور اہلیت ہے۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنابھی جہاد ہے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں ہمارا جہاد حکمران کے فریضے کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہے بلکہ حکمران کو اس فریضے کی ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔ |