کی آزادی ہے نہ کہ کسی اسلامی ریاست کا قیام۔ اگر تو جہادی تحریکوں کا منشور بھی وہی ہے جو کہ ان سیاسی و سماجی کشمیری تنظیموں کا ہے توفبہا لیکن اس صورت میں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے موقف میں اس بات کو اچھی طرح واضح کریں کہ وہ کسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ ان کا مقصد محض کشمیری عوام کی آزادی ہے۔اور اگر جہادی تحریکیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ کشمیر میں اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذ شریعت کے لیے لڑ رہی ہیں تو پھر ان کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے عوام اور ان کی مقامی سیاسی تنظیموں کو کشمیر میں اقتدارکا حق حاصل ہے یا غیر ملکی مجاہدین کو؟ [اگر تو کشمیر علیحدہ ریاست بنے گا تو اس صورت میں پاکستانی مجاہدین کشمیریوں کے لیے غیر ملکی ہوں گے] 5۔ اگر ایسی صورت حال ہو کہ کشمیر اپنی آزادی کے بعد ایک آزاد‘ خود مختار ریاست ہو اوربالفرض کشمیر کی آزادی کے بعد اس کی تمام مقامی سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی جماعتیں مجاہدین کے حق میں اقتدار سے دست بردار ہو جاتی ہیں توپھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کشمیر میں کون سی عسکری تنظیم اپنا اقتدار قائم کرے گی؟ اس وقت کشمیر میں تقریباًسترہ عسکری تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض مقامی مجاہدین پر مشتمل ہیں مثلاً حزب المجاہدین وغیرہ ۔۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ راقم الحروف اٹک کالج میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا کہ اس دوران کالج میں ’ حزب المجاہدین‘ کے ایک سپریم کمانڈر کی تقریر سننے کا موقع ملا۔خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک طالب علم نے یہی سوال اٹھایا کہ کشمیر میں اس وقت چودہ عسکری جماعتیں کام کر رہی ہیں تو کشمیر کی آزادی کے بعد کشمیر پر حکومت کون سی جماعت کرے گی اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ جماعتیں افغان جہاد کی طرح روس کو شکست دینے کے بعد آپس میں نہیں لڑیں گی؟ ان کمانڈر صاحب کا جواب یہ تھا کہ ہم نے کشمیر کے چودہ حصے بنا رکھے ہیں جن کو ہم آپس میں بانٹ لیں گے لہٰذا آپ حضرات اطمینان رکھیں کشمیر میں افغانستان جیسی خانہ جنگی پیدا ہونے کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں ہے۔فیا للعجب! اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی جہادی تحریک اٹھتی ہے تو وہ خلوص ‘ تقویٰ اور للہیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور تاحال جو افراد بھی کشمیر ‘ افغانستان ‘عراق اور سوات |