Maktaba Wahhabi

203 - 264
2۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا ایک صوبہ بن جائے۔ یہ صورت حال بھی کوئی آئیڈیل نہیں ہے کیونکہ تمام جہادی تحریکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں موجود نظام طاغوتی ہے لہٰذا کیا مجاہدین کی شہادتوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اور خطہ ارضی میں طاغوتی نظام قائم ہو جائے ؟ 3۔ مقبوضہ کشمیر ایک آزاد مسلمان ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ اس صورت میں بھی غالب امکان یہی ہے کہ کشمیر میں بر سر پیکارسیاسی ‘ سماجی اور جہادی تنظیموں کے باہمی قیادت و سیادت کے اختلافات کا بہانہ بناکر امریکہ یہاں قبضہ کر لے۔امریکہ کے لیے اس وقت کشمیر جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بہترین سرزمین ہے کیونکہ اس کی سرحدیں تین ایٹمی طاقتوں چین ‘ انڈیا اور پاکستان سے ملتی ہیں ۔علاوہ ازیں امریکہ کے بدترین مخالفین روس اور ایران بھی اس علاقے میں ہیں ۔لہٰذا انڈیا سے آزادی کی صورت میں کشمیر کے لیے ایک خود مختار‘ آزاد ریاست کے طور پر زندہ رہنا ایک مشکل ہی نہیں ناممکن امر محسوس ہوتا ہے ۔ 4۔ اگر تیسرے آپشن پر مزید بحث بڑھائی جائے کہ کشمیر‘ انڈیا سے آزاد ہونے کے بعد ایک خود مختار اور آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ سکتا ہے‘ جیسا کہ دنیا میں اس طرح کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی موجود ہیں مثلاً کویت وغیرہ‘ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی آزاد مسلم ریاست کا حکمران کون ہو گا؟ کشمیری عوام کی ترجمان سیاسی ‘سماجی اور مذہبی تنظیمیں یا غیر کشمیری جہادی تحریکیں ؟ صرف آل پارٹیز حریت کانفرنس تقریباً۳۰ سیاسی و سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے جو کشمیرکی آزادی کے لیے کوشاں ہیں ۔ ان میں مسلم کانفرنس‘ تحریک حریت ‘ کشمیری جمعیت علمائے اسلام‘ عوامی کانفرنس‘ جماعت اسلامی‘ اتحاد المسلمین‘ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(یٰسین ملک)‘ عوامی لیگ‘ آزادی کونسل‘ جموں و کشمیر عوامی کانفرنس‘ عوامی ایکشن کمیٹی‘ انجمن تبلیغ اسلام‘ جمعیت اہل حدیث‘ جمعیت حمدانیہ‘ کشمیر بار ایسوسی ایشن‘ کشمیر بزم توحید‘ تحریک حریت کشمیری‘ سیاسی کانفرنس‘ جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیٹی‘ سٹوڈنٹ اسلامک لیگ‘ دختران ملت اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(امان اللہ خان) وغیرہ ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ ان سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی تنظیموں کااصل منشورانڈیا کے مظالم سے کشمیری عوام
Flag Counter