کسی طور بھی تسلیم نہیں کرے گی لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز یا سابقہ فوجی حکمرانوں کے بارے اس جماعت کے حد درجہ نرم رویے کی وجہ سے اس وقت عام جہادی وتحریکی عناصر میں ان کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے گر رہا ہے ۔ جو لوگ بھی’ جیش محمد‘ اور’ لشکر طیبہ‘ کی عسکری تربیت کے نظام سے گزرے ہیں وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے معسکرات میں عسکری تربیت کے ساتھ مسلکی وابستگی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ دونوں مکاتب فکرکے معسکرات میں تقاریر و دروس کے ذریعے احسن طریقے سے ایک دوسرے کے مسلک کا رد کیا جاتا ہے۔ اوراب تو صورت حال یہ ہے کہ ایک ہی مسلک کی دوجہادی تنظیموں کے درمیان بھی اتفاق نہیں ہے ۔ ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور ’لشکر طیبہ‘ بھی اس وقت شدید باہمی تناؤ کی کیفیت سے گزر رہی ہیں کیونکہ مقدم الذکرجہادی تحریک پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف جہاد کر رہی ہے تو مؤخر الذکر ان کے تعاون سے جہاد کر رہی ہے۔ اللہ نہ کرے لیکن امکان موجود ہے کہ یہ تناؤ جہادی تحریکوں کے مابین کسی بگاڑ کا باعث نہ بن جائے۔ ان دونوں جماعتوں میں فکری جنگ وجدال کاکسی قدر اندازہ طالبان پاکستان کے اردو فورم ’باب الاسلام‘ اور جماعۃالدعوۃ کے کارکنان کے فورم’الصادقین‘ کے مباحثوں اور مکالموں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں جہادی تحریکوں مثلاً جماعۃ الدعوۃ وغیرہ کے ویلفیئر، تعلیم اور صحت کے شعبہ میں خدمات کا تعلق ہے تو وہ واقعتا نہ صرف قابل تعریف بلکہ خراج تحسین کے لائق ہیں ۔جماعۃ الدعوۃ کے امیر جناب پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کی فراست اور بصیرت اس اعتبار سے بھی لائق تحسین ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کو مسلمانوں کے مابین کسی باہمی جنگ وجدال یا خانہ جنگی کا حصہ نہیں بننے دیا اور اپنا ٹارگٹ صرف اور صرف کفار ومشرکین ہی کو قرار دیا۔ 3۔ اگرمقبوضہ کشمیر آزاد ہوجائے‘ اور اللہ کرے گا کہ ہو جا ئے گا‘ تو مستقبل کے کشمیر کی تین صورتیں بنتی ہیں : 1۔ اس کا الحاق ایک آزاد ریاست کے طور پر انڈیا سے ہو جائے جو کہ ناممکن اور ناقابل عمل صورت ہے۔ |