کو دہشت گرد جماعت قرار دیا جس کی وجہ سے اس کا نام دوبارہ تبدیل کر کے ’حرکۃ المجاہدین‘ رکھا گیا۔ ۱۹۹۹ء میں انڈیا کے ایک مسافر طیارے کے اغواء کیس میں مولانا مسعود اظہر کی رہائی ممکن ہوئی تو انہوں نے ۲۰۰۰ء میں ایک نئی جہادی تحریک ’جیش محمد‘کی بنیاد رکھی۔ ’حرکۃ المجاہدین‘ کے بہت سارے کارکن مولانا کی اس جماعت میں شامل ہوگئے ۔’حرکۃ الجہاد الاسلامی ‘سے لے کر’ جیش محمد‘ تک اور اس کے علاوہ بھی دیوبندی مکتب فکر کی اکثر و بیشتر جہادی تحریکوں میں ایسے افکار موجود ہیں کہ جن کے مطابق حربی(combatants)کفارکے ساتھ عام کافر شہریوں(civilians)کو قتل کرنا بھی جائزہے۔ علاوہ ازیں یہ جماعتیں پاکستانی حکمرانوں اور افواج پر امریکہ کی حمایت کی وجہ سے کفر کا فتویٰ لگاتی ہیں اور ان کے ساتھ قتال کو واجب قرار دیتی ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہم سوات وغیرہ میں مولانا فضل اللہ کی تحریک کی صورت میں دیکھ چکے ہیں ۔ دوسری طرف۱۹۹۰ء میں اہل حدیث مکتبہ فکر کی طرف سے افغانستان میں ’ لشکر طیبہ‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ پاکستان میں موجود اہل حدیث کی معروف تحریک ’جماعۃ الدعوۃ‘ کا ایک عسکری شعبہ ہے۔۲۰۰۰ء کے دوران پاکستانی ایجنسیوں نے’ حرکۃ المجاہدین ‘کے انتہائی نظریات کی وجہ سے اس سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیے اور’جیش محمد‘ اور ’لشکر طیبہ ‘کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت آگے لایا گیا۔۲۰۰۳ ء میں ’جیش محمد‘ کو بھی امریکہ کے دباؤ پر بین کر دیا گیا۔ ’لشکر طیبہ ‘پر پابندی لگانے کے لیے بھی حکومت پاکستان پر امریکہ کی طرف سے کافی دباؤ ڈالا گیا لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے بظاہر اگرچہ اس جماعت کے ساتھ تعاون میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن تاحال اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی جس کی اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ’ لشکر طیبہ‘اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی فضاتاحال قائم ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لشکر طیبہ کی قیادت کے برعکس ان کے بعض مجاہدین کا اعتماد اب ایجنسیوں سے اٹھ گیا ہے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے قتال میں لشکر سے علیحدہ ہونے والے مجاہدین کی بھی ایک جماعت شامل ہے کہ جن کا لٹریچر اور ویڈیوز کثرت سے دستیاب ہیں ۔ اگرچہ’ جماعۃ الدعوۃ‘ کی قیادت اس حقیقت کو |