Maktaba Wahhabi

200 - 264
سیکولر ذہن رکھنے والے مقتدر طبقہ کو یہ بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں جس قدر مذہبی جوش و جذبہ موجود ہے اس کو کشمیر وغیرہ میں استعمال کیا جائے تاکہ نوجوانوں کی ایمانی قوت اور تحریک کا کوئی مثبت یا دعوتی استعمال پاکستان میں نہ ہو۔وہی مجاہدین جو کشمیر میں قربانیاں پیش کر رہے ہیں اگر پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی پُرامن جدوجہد شروع کر دیں تو اس صورت میں پاکستان کے حکمرانوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ سوات میں مولانا صوفی محمد صاحب کی ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘اس کی بہترین مثال ہے کہ جب اس تحریک کے ہزاروں کارکنان امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان گئے تو انہیں ریاست وحکومت کی خاموش حمایت حاصل تھی لیکن جب انہوں نے بذریعہ احتجاج مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا تو انہیں تصویر عبرت بنا دیا گیا۔ صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کی جہادی تحرکیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ایجنسیوں کو استعمال کر رہی ہیں اور ایجنسیوں کا یقین یہ ہے کہ جہادی تحریکیں ان کی آلہ کار ہیں ۔ جہادِ کشمیر کا ایجنسیوں پر انحصار جہاں کچھ فوائد کا حامل ہے وہاں کچھ بڑے نقصانات کا سبب بھی ہے۔مثلاًکارگل کے محاذ پر امریکہ کے حکم پر جب پاکستانی افواج نے پسپائی اختیار کی تو مجبوراً مجاہدین کو بھی ایسا کرنا پڑا اور بڑے پیمانے پر نہ صرف جانی ومالی نقصان ہوابلکہ مجاہدین کے تعاون سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہو گئی۔ 2۔ کشمیر کی جہادی تحریکوں کا ایک قابل اعتراض پہلو ان کے باہمی مسلکی اور قیادت کے اختلافات بھی ہیں ۔ہم یہاں یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی معروف جہادی تحریکوں کا ایک مختصر تاریخی پس منظر قارئین کے سامنے رکھیں ۔شیخ اسامہ بن لادن h نے ۱۹۸۰ء میں افغان جہاد کے دوران’ حرکۃ الجہاد الاسلامی‘نامی تحریک کی بنیاد رکھی۔۱۹۸۵ء میں بعض اختلافات کی بنیاد پر اس تحریک سے کچھ مجاہد ین الگ ہوئے اور انہوں نے ’حرکۃ المجاہدین‘ کے نام سے اپنی ایک الگ تنظیم بنا لی ۔۱۹۸۹ء میں ’حرکۃ المجاہدین‘ کے مجاہدین سوویت یونین کی جنگ ختم ہونے کے بعد کشمیر میں داخل ہوئے۔ ۱۹۹۳ء میں مولانا مسعود اظہر کی کوششوں سے’ حرکۃ الجہاد الاسلامی‘ اور’حرکۃ المجاہدین‘ میں اتحاد ہو گیا اور اس جماعت کا نیا نام ’حرکۃ الأنصار‘ رکھا گیااور اسی سال مولانا سری نگر میں انڈین فورسز کی قید میں چلے گئے۔۱۹۹۷ء میں امریکہ نے اس جماعت
Flag Counter