پر فرض ہے جو اس کی کامل استطاعت واہلیت بھی رکھتے ہیں اور اس کے ذمہ داربھی ہیں جبکہ پاکستانی عوام پر یہ جہاد فرض عین نہیں ہے۔ اس بارے عامۃ الناس کا فرض یہی ہے کہ وہ اُس جماعت کو جہاد و قتال پر آمادہ کریں جو کہ اس کی استطاعت و اہلیت رکھتی ہے۔ عوام الناس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا ٹیکس اسی لیے ادا کرتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز عوام اور ملکی جغرافیائی حدود کی حفاظت کریں ۔پس اس موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد اصلاً ریاستی افواج کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں مجاہدین کی معاونت بھی شامل ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افواج پاکستان کے ساتھ مل کر جب مجاہدین نے کارروائیاں کیں تو موجودہ آزاد کشمیر ہمیں حاصل ہوا اور اس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے جو افواج اور مجاہدین کے باہمی تعاون کی وجہ سے تقریباً جیتی جا چکی تھی۔لہٰذاکشمیر کی آزادی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس محاذ پر پاکستانی افواج لڑیں جو اس خطہ ارضی کو دشمن کے پنجہ سے آزاد کرانے کی استطاعت و صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور ان کی بنیادی ذمہ داری بھی یہی ہے اور اسی کی وہ تنخواہ بھی لیتی ہیں ۔اس موقف کے مطابق کشمیر میں عوامی جہادی تحریکوں کی جدوجہد سے انڈیا کو کچھ جانی و مالی نقصا ن تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن وہاں کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں کی جاسکتی جس کے اسباب درج ذیل ہیں : 1۔ بلاشبہ کشمیر میں اس وقت جس قدر جہاد و قتال ہو رہا ہے وہ سکیورٹی فورسز اور ایجنسیوں کے کسی درجہ میں تعاون سے ہی ہو رہا ہے ۔ اس تعاون کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ فوائد کا پہلو تو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں جبکہ نقصان یہ ہے کہ اس تعاون کی صورت میں اصل مقاصد ایجنسیوں کے پورے ہوتے ہیں نہ کہ جہادی تحریکوں کے۔ اگر تو دونوں کے مقاصد متفق ہو جائیں تو فبہا بصورت دیگر قربانیاں مجاہدین دیتے ہیں اور نتائج ایجنسیوں کے مرضی کے حاصل ہوتے ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کی گوریلا کارروائیوں کے سبب سے انڈیا کی تقریباً آٹھ سے دس لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں مصروف عمل ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو انڈیا کی یہ اضافی فورسز کہاں جائیں گی؟صاف ظاہر ہے یہ پاکستان کے بقیہ بارڈرز پر جنگی مشقیں کر کے ہمارے مقتدر طبقہ کی نیندیں حرام کر دیں گی۔دوسرا فائدہ |