Maktaba Wahhabi

186 - 264
’’فإذا بلغ إلی الکفر البواح الکفر الأکبر فإنہ حینئذ لا بیعۃ لہ ولکن من الذی یحکم بکفرہ؟ لایحکم بکفرہ إلا الراسخون فی العلم الذین یصدرون عن کتاب اللّٰہ و سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا یصدرون عن الأھواء۔‘‘ (80) ’’پس اگر حکمران کا کفر ‘ کفر بواح یا کفر اکبر تک پہنچ جائے تو اس وقت اس کی بیعت جائز نہیں ہے۔لیکن کون اس حکمران کے کفر کا فیصلہ کرے گا؟اس حکمران کے کفر کا فیصلہ صرف وہ راسخون فی العلم کریں گے جو کتاب اللہ اور سنت رسول سے فتویٰ جاری کرتے ہیں نہ کہ اپنی خواہشات سے۔‘‘ 3۔ اگر حکمران کے کفر صریح یاظلم یا نماز میں کوئی شبہ ہو تو اس کے خلاف خروج جائز نہیں ہو گا۔شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یعنی أنہ لو قدرنا أنھم فعلوا شیئا نری أنہ کفر لکن فیہ احتمال أنہ لیس بکفر فإنہ لا یجوز أن ننازعھم أن نخرج علیھم۔‘‘ (81) ’’ مراد یہ ہے کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ حکمرانوں نے جو کام کیا ہے وہ کفر ہے لیکن اس فعل کے کفر یہ نہ ہونے کا بھی احتمال موجود ہو تو پھر ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ ہم ان سے امارت چھیننے کی کوشش کریں یا ان کے خلاف خروج کریں ۔‘‘ 4۔ اگر کفر کی وجہ سے حکمران کے خلاف خروج ہو رہا ہو تو وہ کفر ایسا ہو جو علماء کے ہاں متفق علیہ ہو۔یعنی ایسا نہ ہو کہ بعض علماء تو حکمران کے کفر کے فتوے جاری کر رہے ہوں اور بعض اس کی تکفیر کے قائل نہ ہوں ۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’امداد الفتاوی‘ میں لکھا ہے کہ((إلا أن تروا کفرا بواحا)) میں ’رأی‘ کا ایک مفعول لایا گیا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ کفر ایسا صریح ہو کہ ہر کسی کو نظر آئے اور علما ء کا اس کفر کے کفر ہونے پر اتفاق ہو یعنی علماء کے ہاں وہ کفر متفق علیہ ہو۔مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ نے بھی شرح مسلم میں مولاناکے اس قول کا خلاصہ نقل کیا ہے۔ (82) 5۔ اگر کفر بواح کی بنیاد پر حکمران کے خلاف خروج کیا جا رہا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ حکمران کے جن افعال پر کفر بواح کا فتویٰ لگایا جا رہا ہے ‘ وہ ان میں متاول تو نہیں ہے۔اگر تو حکمران کے لیے خروج کرنے والوں کے الزامات کی کوئی مناسب تردید موجود
Flag Counter