ہو تو اس حکمران کے خلاف خروج جائز نہ ہو گا۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فإن کان الخروج عن طاعۃ الحکم بالسیف أی بالقوۃ المادیۃ العسکریۃ من فئۃ لھا قوۃ وشوکۃ۔۔۔فإن کان لھم شبھۃ فی خروجھم وھو ما یعبر عنہ الفقھاء بأن لھم تاویلا سائغا أی لہ وجہ ما کأن یعترضوا علی بعض المظالم الواقعۃ أو علی التقصیر فی تطبیق بعض جوانب الشریعۃ أو التھاون مع أعداء الدین والأمۃ بالتمکین لقواتھم أو جنودھم من أرض الاسلام أو غیر ذلک مما لہ وجہ وإن کان الرد علیہ ممکنا ومیسورا فھؤلاء(بغاۃ) کما سماھم الفقھاء فی المذاھب المختلفۃ وقتال البغاۃ مشروع لقول اللّٰہ تعالی ﴿فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء إلی أمر اللّٰہ ﴾ وللحدیث من أتاکم وأمرکم جمیع علی رجل واحد یرید أن یشق عصاکم ویفرق جماعتکم فاقتلوہ۔‘‘ (83) ’’ پس اگر حکمران کی اطاعت سے خروج تلوار یعنی مادی و عسکری قوت کے ساتھ کسی ایسے گروہ کی طرف سے ہو جس کے پاس قوت و شان و شوکت ہو۔۔۔پس اگر تو حکمرانوں کو اس گروہ کے خروج میں کوئی شبہ ہو یعنی فقہاء کی زبان میں ہم یہ کہیں گے کہ حکمرانوں کے پاس اس گروہ کے اعتراضات کی کوئی آسان تاویل موجودہو‘ چاہے یہ اعتراضات کسی بھی نوعیت کے ہوں مثلاًخروج کرنے والے حکمرانوں پر یہ اعتراض کریں کہ انہوں نے کچھ ظلم کیے ہیں یا وہ یہ الزام عائد کریں کہ حکمرانوں نے بعض گوشوں میں شریعت اسلامیہ کی تطبیق میں کوتاہی کی ہے یا وہ یہ اعتراض کریں کہ حکمرانوں نے امت مسلمہ اور دین اسلام کے دشمنوں ‘ ان کی افواج اور لشکروں کے مسلمان ممالک پر قبضے کے بارے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے یا اس کے علاوہ وہ کوئی اور اعتراض وارد کریں ۔پس اگر اس اعتراض کا رد ممکن اور آسان ہو تو پھر یہ خروج کرنے والے باغی کہلائیں گے جیسا کہ مختلف فقہی مذاہب میں فقہاء نے ان کو یہ نام دیا ہے۔ایسے باغیوں سے قتال اللہ تعالیٰ کے اس قول |