الذی لھم۔‘‘ (62) ’’ اسی وجہ سے اہل سنت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان کے ساتھ تلوار سے قتال کوجائز نہیں سمجھتے ہیں اگرچہ وہ حکمران ظالم ہی کیوں نہ ہوں ‘جیسا کہ اس مسئلے میں صحیح اور معروف روایات آپ سے مروی ہیں ۔کیونکہ حکمرانوں سے قتال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے کے حالات میں جو فساد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر قتال و فتنے کے حالات میں حکمرانوں کے ظلم و ستم سے حاصل ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے۔پس دو فسادوں میں سے ادنیٰ فساد کو اختیار کرتے ہوئے بڑے فساد کو دور کیا جائے گا۔اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ(تاریخ اسلامی میں ) جس گروہ نے بھی کسی حکمران کے خلاف خروج کیا ہے تو اس کے خروج سے اُس سے بڑھ کر فساد پیدا ہوا ہے جو اس حکمران کی موجودگی میں تھا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر ظالم اور باغی سے ہر حال میں قتال کا حکم نہیں دیاہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے باغیوں سے بھی ابتدائی طور قتال کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ یہ کہا ہے : اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔پس اگر ان میں کوئی ایک دوسرے پر ظلم کرے تو اس سے قتال کرو جو ظلم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم(یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔پس اگر وہ دوسرا گروہ واپس لوٹ آئے تو ان دونوں کے مابین عدل کے ساتھ صلح کروادو۔پس اللہ تعالیٰ نے باغی گروہ سے بھی ابتدائی طور قتال کا حکم نہیں دیا تو حکمرانوں سے ابتدائی طور قتال کا حکم کیسے ہو گا؟۔۔۔آپ نے یہ بھی خبر دی ہے کہ حکمران ظلم کریں گے اور کچھ منکرات کا ارتکاب کریں گے لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کو ان کا حق دیں اور اللہ سے اپنے حق کا سوال کریں ۔ اورآپ نے ہمیں حکمرانوں سے اپنا حق لینے کے لیے قتال کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ہمیں یہ رخصت دی ہے کہ ہم حکمرانوں کو ان کا حق نہ دیں ۔‘‘ امام صاحب اس مسئلے میں صرف فکری بحث نہیں کرتے بلکہ وہ تاریخ اسلام کے حوالے نقل کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس امت میں فاسق و ظالم حکمرانوں کے خلاف جتنے بھی خروج ہوئے ہیں ‘ ان سے ظلم ختم نہیں ہوابلکہ بڑھا ہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان‘ حضرت علی ‘ حضرت عائشہ‘ حضرت طلحہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور بنواُمیہ کے |