امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بحث کوبھی خوب اچھی طرح نکھارا ہے کہ ان آیات کا مفہوم یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں ہر ظالم کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا ہے۔امام صاحب ﴿وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا﴾(61)کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جن دو گروہوں کی لڑائی ہوئی ہے ‘ ان میں سے بھی تو کوئی ایک ظلم و زیادتی کر رہاتھالیکن اس سے بوجوہ ابتدائً قتال کا حکم نہیں دیااور فرمایاکہ ان کے مابین صلح کروا دو۔امام صاحب اس سے دلیل پکڑتے ہیں کہ ہر ظالم ‘ کہ جس کا ظلم اجتماعی بھی ہو‘ اس سے قتال کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ مختلف حالات کے تحت حکم مختلف ہو گا۔عام حالات میں ظالم حکمران سے قتال کی صورت میں جو ظلم پیدا ہو گا ‘ اس کے بارے میں امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ اس ظالم حکمران کے ابتدائی ظلم سے بڑھ کر ہوگا۔امام صاحب فرماتے ہیں : ’’ولھذا کان المشھور من مذھب أھل السنۃ أنھم لا یرون الخروج علی الأئمۃ وقتالھم بالسیف وإن کان فیھم ظلم کما دلت علی ذلک الأحادیث الصحیحۃ المستفیضۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأن الفساد فی القتال والفتنۃ أعظم من الفساد الحاصل بظلمھم بدون قتال ولا فتنۃ فلایدفع أعظم الفسادین بالتزام أدناھما ولعلہ لا یکاد یعرف طائفۃ خرجت علی ذی سلطان إلا وکان فی خروجھا من الفساد أکثر من الذی فی إزالتہ واللّٰہ تعالی لم یأمر بقتال کل ظالم وکل باغ کیفماکان و لا أمر بقتال الباغین ابتداء بل قال﴿ وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فأصلحوا بینھما فإن بغت إحداھما علی الأخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء إلی أمر اللّٰہ فإن فاء ت فأصلحوا بینھما بالعدل﴾ فلم یأمر بقتال الباغیۃ ابتداء فکیف یأمر بقتال ولاۃ الأمر ابتداء۔۔۔فقد أخبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن الأمراء یظلمون ویفعلون أمورا منکرۃ ومع ھذا فأمرنا أن نؤتیھم الحق الذی لھم ونسأل اللّٰہ الحق الذی لنا ولم یأذن فی أخذ الحق بالقتال ولم یرخص فی ترک الحق |