Maktaba Wahhabi

168 - 264
﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلَ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ﴾ (57) ’’ پس جو کوئی تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس سے اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہو جتنی کہ اس نے تمہارے ساتھ کی ہے۔‘‘ اورآیت مبارکہ ﴿فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ﴾(58) ’’ تم لڑائی کرو اس جماعت سے جو ظلم کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ کایہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انسان کے پاس بدلے کی اہلیت و استطاعت نہ ہو اور پھر بھی وہ بدلہ لینے چل پڑے اور اس طرح اپناہی مزید نقصان کر لے۔یہ خطاب انہی لوگوں سے ہے جو بدلہ لینے کی استطاعت و صلاحیت رکھتے ہیں ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تک بدلہ لینے کی استطاعت و صلاحیت نہ تھی اس وقت بھی ظلم ہو رہا تھا لیکن صبر و مصابرت اور ہاتھوں کو روکنے کا حکم تھا۔جیسا کہ قرآن کی آیت ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ﴾ (59) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جنہیں کہا گیا تھاکہ تم اپنے ہاتھ باندھے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ‘پس جب ان پر قتال فرض کیا گیا۔‘‘ میں اس بات کی طرف صریح اشارہ ہے کہ پہلے ظلم کے مقابلے میں ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم تھا‘ پھر بدلہ لینے کی اجازت بھی نازل ہو گئی۔ لہٰذا ظلم کے جواب میں صبر و مصابرت اور ظلم کے جواب میں بدلہ لینا دونوں ہی اسلام کے منہج ہیں اور تاحال جاری ہیں ۔ان میں سے کوئی منہج بھی منسوخ نہیں ہوا ہے۔بعض ناواقف لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ جہاد و قتال کی آیات کے نزول کے بعد قرآن کا وہ ایک تہائی حصہ منسوخ ہے جو صبر و مصابرت اور انذار و تبلیغ کے بارے میں ہے۔امام ابن تیمیہ نے ’مجموع الفتاویٰ‘ اور امام زرکشی ; نے ’البرہان‘ میں اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت کی ہے کہ یہ دونوں مناہج تاحال برقرار ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے۔ (60) حالات کے اعتبار سے یہ فیصلہ کیاجائے گاکہ کون سا منہج اختیار کیا جائے۔
Flag Counter