اور آیت مبارکہ ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ﴾(54) ’’پس جو کوئی تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس سے اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہو جتنی کہ اس نے تمہارے ساتھ کی ہے۔‘‘ سے بھی ظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے جواز پر استدلال پیش کرتے ہیں ۔ان علماء کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کی جن آیات میں ظالم مسلمان سے قتال یا بدلہ لینے کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے مراد اجتماعی ظلم ہے ۔یعنی اگر حکمران کا ظلم اجتماعی ہو اور مسلمانوں کا ایک معتد بہ طبقہ یا جماعت اس ظلم سے متاثر ہو رہی ہو تو پھر اس ظالم مسلمان حکمران کے خلاف قتال جائز ہے۔ اور جن احادیث میں ظالم حکمران کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے، وہ انفرادی ظلم وستم کے بارے میں ہیں ۔ اسی طر ح اگر حکمران کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والی جماعت سے کوئی معاہدہ یا مصالحت ہو جائے تو اب اس معاہدے کی اگر حکمران خلاف ورزی کرے تو حکمران سے قتال قرآن کی آیت ﴿وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ﴾(55) ’’ اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔پس اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم و زیادتی کرے تو اس ظلم و زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ کے تحت جائز ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ قتال کی علت’ ظلم‘ ہے اور ظالم کافر ہو یا ظالم مسلمان‘ دونوں سے قتال ہوسکتاہے بشرطیکہ اس کی اہلیت و استطاعت ہو۔ پس آیت مبارکہ ﴿وَالَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ﴾ (56) ’’ اور وہ لوگ کہ جن کے ساتھ اگر زیادتی یا ظلم ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں ۔‘‘ اور آیت مبارکہ |