Maktaba Wahhabi

164 - 264
امامت حاصل تھی نہ کہ وہ دنیا کے بادشاہ تھے۔پس اس معنی میں ہر دور میں اہل علم کو مسلمانوں کی روحانی امامت حاصل رہی ہے اور لوگ دل و جان سے ان کے معتقد و متبع رہے ہیں ۔ہمارے نزدیک یہی اس آیت کا حقیقی مفہوم ہے اور یہ امامت آج بھی ’راسخون فی العلم‘ کوحاصل ہے۔ امام ’فِعال‘ کے وزن میں اسم مفعول کے معنی میں ہے یعنی جس کی پیروی کی جائے جیسا کہ ’کتاب‘ ۔ اور اصل پیروی تو انبیاء علیہم السلام یا ان کے وارثین اہل علم ہی کی ہوتی ہے نہ کہ سیاسی حکمرانوں کی۔پس اس معنی کے ساتھ﴿لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾ اللہ کی طرف سے انبیاء‘ صحابہ ‘ تابعین ‘ ائمہ سلف اور راسخون فی العلم کو روحانی امامت عطا کرنے کا ایک وعدہ ہے جو کہ پورا ہو چکا اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ اگر تاریخی روایات پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھیں توامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کوفہ میں تقریباً۱۲۰ھ میں اپنے استاذ امام حماد رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مسند درس و تدریس پر فائز ہوئے۔زید بن علی رحمہ اللہ کا خروج۱۲۲ھ میں ہوا کہ جس خروج کے حق میں تاریخ کی مستند و ابتدائی کتابوں مثلاً تاریخ طبری‘ طبقات ابن سعدمیں امام صاحب کی تائید کا تذکرہ ہمیں نہیں ملا۔بلکہ امام جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ امام صاحب نے اس خروج کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یہ کامیاب ہونے والا نہیں ہے۔ (46) ۱۴۵ھ میں محمد بن عبد اللہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہ; نے عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور کے خلاف خروج کیا۔ (47) مولانا مودودی رحمہ اللہ نے امام جصاص اورعلامہ کردری ; کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کو نفس زکیہ رحمہ اللہ سے بیعت کرنے کی تلقین کرتے تھے اور اس کے ساتھ مل کر عباسی خلیفہ کے خلاف خروج کو کافروں سے جنگ سے بھی زیادہ افضل سمجھتے تھے اور اس خروج کو نفلی حج سے ۵۰ یا ۷۰گنا زیادہ قابل ثواب سمجھتے تھے۔(48) یہاں ہم پھر یہی عرض کریں گے کہ امام جصاص رحمہ اللہ کی کتاب’أحکام القرآن‘ تو سرے سے تاریخ کی کتاب ہی نہیں ہے۔ مکی رحمہ اللہ چھٹی اور کردری رحمہ اللہ نویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں ۔ تاریخ کے بنیادی مصادرابن سعد رحمہ اللہ(۱۶۸ تا ۲۳۰ھ) کی ’الطبقات الکبری‘اورابن جریر طبری رحمہ اللہ(۲۲۴تا ۳۱۰ھ) کی
Flag Counter