Maktaba Wahhabi

165 - 264
کتاب’تاریخ طبری‘ میں امام صاحب کے یہ بیانات ہمیں نہیں ملے۔ اب سوال یہ ہے کہ چھٹی یانویں صدی ہجری میں الموفق المکی اور علامہ کردری ; کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ امام صاحب کا نفس زکیہ کے خروج کے بارے میں یہ موقف تھا؟اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ امام صاحب کا طرز عمل ان اقوال کی شدت سے نفی کرتا ہے۔ امام صاحب اگر اپنے شاگردوں کو نفس زکیہ رحمہ اللہ کی بیعت کی تلقین کرتے تھے تو انہوں نے خود ان کی بیعت کیوں نہ کی؟اگر امام صاحب کے نزدیک یہ خروج واجب تھا تو انہوں نے ایک شرعی واجب کو ترک کیوں کیا؟اگر امام صاحب اس خروج کو نفلی حج سے ۵۰ یا ۷۰ گنا زیادہ ثواب کا کام سمجھتے تھے تو وہ یہ ثواب حاصل کرنے میں پیچھے کیوں رہے اور صرف اپنے شاگردوں کو ہی اس ثواب کے حصول کی تلقین کیوں کرتے رہے؟اور ان کے نمایاں شاگردوں میں سے بھی کیا امام ابو یوسف‘ امام محمد ‘ امام زفرs نے ان کے اس فتویٰ پر عمل کیا اور بالفعل اس خروج میں شامل ہوئے؟ ہم اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ کبھی امام صاحب سے نفس زکیہ رحمہ اللہ کے خروج کے بارے میں کوئی سوال ہوا ہوتو انہوں نے اس کے خروج کے جواز کی تائید میں کوئی بات کہی ہو لیکن اس کو بھی اسی وقت مانا جاسکتا ہے جبکہ اس بارے میں تاریخ یا فقہ کی اولین و مستند کتابوں میں کوئی بیانات مذکور ہوں اور جہاں تک اس خروج کے حوالے سے مبالغہ آمیز کہاوتیں امام صاحب کی طرف منسوب کرنے کا معاملہ ہے تو ہم اس کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں جیسا کہ بعض متاخرین حنفیہ اور مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ایسا کیا ہے۔ہم ان روایات کی امام صاحب کی طرف نسبت کی شدت سے نفی کرتے ہیں ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امام صاحب نے نفس زکیہ رحمہ اللہ کے خروج کے حق میں فتویٰ دیا تھا تو پھر بھی اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ امام صاحب نے اس خروج کی ناکامی اور مفاسد کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہو جیسا کہ شیخ ابو زہرہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’حیات امام ابی حنیفہ‘میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خروج کے حوالہ سے امام صاحب کی رائے تبدیل ہوئی تھی۔ (49)علاوہ ازیں ’عقیدۃ طحاویۃ‘ اور ’السیر الکبیر‘کے بیانات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی رائے عدم خروج کی تھی اور اگر انہوں نے کسی زمانے میں خروج کے حق میں فتویٰ دیا بھی تھا تو اس سے رجوع کر
Flag Counter