ہے۔ تاہم امام جصاص رحمہ اللہ کے’أحکام القرآن‘کے حوالہ جات قابل غور ہیں ۔امام جصاص نے سورۃ البقرۃ کی آیت﴿لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾یعنی میرا وعدہ ظالموں کونہیں پہنچے گا‘ کے تحت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہ مسلک نقل کیا ہے کہ امام صاحب فاسق و فاجراورظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے تھے۔امام جصاص رحمہ اللہ نے اس موقف کے اثبات میں آیت مذکورہ بالا کے علاوہ ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کی آیات سے بھی استدلال کیا ہے۔(45) یہ بات واضح ہے کہ اہل سنت اور معتزلہ کے تصور’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ میں بہت فرق ہے۔’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ معتزلہ کے اصول خمسہ میں سے ایک بنیادی اصول ہے کہ جس کے تحت وہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے ہیں جیسا کہ عقائد کی کتابوں میں یہ بحث مفصل طور پر موجود ہے۔ امام جصاص رحمہ اللہ اپنی جلالت علم اور فقہی بصیرت کے باوجود اس مسئلے میں ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ سے متعلق آیات و احادیث کی جوتشریح و توضیح پیش کرتے ہیں ‘ وہ درحقیقت معتزلہ کے تصور دین اور دلائل پر مبنی ہیں ۔اہل سنت’نہی عن المنکر بالید‘ کے قائل ہیں لیکن معتزلہ کی طرح ہر حال میں اس کو واجب قرار نہیں دیتے۔رہا امام جصاص رحمہ اللہ کا آیت مذکورہ یعنی ﴿لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾سے خروج کے وجوب پر استدلال کرنا‘ تو یہ استدلال کئی اعتبارات سے محل نظر ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں خبر دی گئی ہے نہ کہ أمر ، اور آیت کا سیاق و سباق﴿قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾خبر کو بمعنی اَمر لینے میں مانع معلوم ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس آیت کو خبر بمعنی اَمرمان بھی لیا جائے تو اس آیت میں منشا متکلم یہ ہے کہ فاسق و فاجر یا ظالم کوابتدائی طور ا مام یا حکمران نہ بنایا جائے اور اس پر تو جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے۔لیکن مسئلہ تو یہ زیر بحث ہے کہ جب ایسا شخص تلوار یا کسی جمہوری طریقے سے حکمران بن جائے تو اس کے بارے میں کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟تیسری بات یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں امامت سے مراد کوئی سیاسی امامت یاحکمرانی نہیں ہے بلکہ رو حانی امامت مراد ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دلوں کی |