بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اس مسئلے میں امام نووی رحمہ اللہ کااجماع کادعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ بنوامیہ اور بنو عباس کے دور میں ظالم حکمرانوں کے خلاف کئی ایک خروج ہوئے۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نفس زکیہ رحمہ اللہ کے خروج کے حق میں فتویٰ بھی دیا تھا اور صحیح بات یہی ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے عدم جواز کی رائے اجماعی نہیں بلکہ جمہور کی رائے ہے۔ 6۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علماء نے فاسق و ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کا دعویٰ نقل کیا ہے ‘وہ دعویٰ تو درست ہے لیکن آج کل کے حکمرانوں پر اس کی تطبیق درست نہیں ہے۔ان علماء نے اپنے زمانے کے حکمرانوں کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے۔ اس دور میں اجتماعی سطح پر دین قائم تھااور حکمران طبقے کا فسق و فجور اس کی ذات تک محدود تھا جبکہ معاصر حکمران نہ صرف اللہ کے دین کو قائم نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف قوانین کا نفاذ کرتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف خروج واجب ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ سابقہ ادوار میں دین اجتماعی سطح پر قائم تھا۔دین اپنی حقیقی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین ہی کے دور میں قائم تھا۔بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں خروج کرنے والوں نے اپنے خلفاء پر جو الزامات لگائے‘ ان میں ذاتی فسق و فجور‘ ظلم وستم کے علاوہ دین کو بگاڑنے‘ فساد فی الأرض اور حرام کو حلال بنانے کے الزامات بھی شامل تھے۔اس میں بہر حال اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفاء نے حرام کو حلال بنا یاتھا یا نہیں ‘ یا ان سے کفریہ اعمال و افعال کا اظہار ہواتھا یا نہیں ‘ جبکہ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جس قسم کے الزامات معاصر حکمرانوں پر عائد کیے جاتے ہیں اور ان کی بنا پر ان کے خلاف خروج کو واجب قرار دیا جاتا ہے‘ اسی قسم کے الزامات بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفاء پر ان کے ادوار میں عائد کیے جاتے تھے۔مثال کے طور پر حجاج بن یوسف کی حدود حر م اور بیت اللہ میں محصور عبد اللہ بن زبیرt اور ان کے اصحاب پر سنگ باری کو کفریہ فعل کا نام نہ دیاجائے تو اور کیا کہا جا سکتا ہے؟تاریخ کی مستند کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ اس سنگ بار ی کے نتیجے میں بیت اللہ کی دیواریں بھی متاثر ہوئیں ۔(34) بنو امیہ کے خلاف خروج میں ابن الأشعث رحمہ اللہ کے ساتھ علماء اور قراء کی ایک بہت بڑی جماعت بھی شامل |