علیھم۔‘‘ (32) ’’حکمران فسق و فجور یعنی اللہ کی اطاعت سے نکل جانے اور اللہ کے بندوں پر ظلم و ستم کی صورت میں معزول نہیں ہوتاکیونکہ خلفائے راشدین کے دور کے بعد حکمرانوں کا فسق و فجوراور ظلم و ستم پھیل گیا تھا لیکن سلف صالحین ان کی اطاعت کرتے تھے‘ ان کے اذن سے ان کے ساتھ جمعہ اور عیدین کی نمازیں قائم کرتے تھے اور ان کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ‘‘ حنفیہ کی اکثریت ماتریدی مکتبہ فکر سے ہے۔اب باقی حنابلہ اور سلفیہ رہ گئے کہ جن کے امام ‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔بنو عباس کے بعض خلفاء معتزلی عقائد کے نہ صرف حامی بلکہ پُرجوش مبلغ بھی تھے۔ان خلفاء نے کئی ایک ائمہ اہل سنت کوخلق قرآن کا عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور ان کو آزمائش و ابتلاء میں بھی مبتلا کیالیکن اس کے باوجود ان ائمہ نے ان کے خلاف خروج کوجائز قرار نہیں دیا۔امام احمد حنبل رحمہ اللہ کے پاس بغداد کے تقریباً تمام فقہاء‘ حاکم وقت’ واثق باللہ‘ کے خلق قرآن کے عقیدے اور اس کی تبلیغ کے خلاف شکایت لے کر آئے اور کہا کہ یہ شخص خلق قرآن کا نہ صر ف عقیدہ رکھتا ہے بلکہ اس کی تبلیغ بھی کرتا ہے تو ہم اس کی امارت اور سلطنت پر راضی نہیں ہیں تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے انہیں جواب دیا: ’’علیکم بالإنکار بقلوبکم ولا تخلعوا یدا من طاعۃ ولا تشقوا عصا المسلمین ولا تسفکوا دمائکم و دماء المسلمین معکم وانظروا فی عاقبۃ أمرکم واصبروا حتی یستریح بر ویستراح من فاجر۔وقال لیس ھذا یعنی نزع أیدیھم من طاعتہ صواباً ھذا خلاف الآثار۔‘‘ (33) ’’تم پر حکمران کے عقیدے کا دل سے انکار واجب ہے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو پارہ پارہ نہ کرو اور اپنا اورمسلمانوں کا خون نہ بہاؤ۔اپنے اس فعل کے انجام پر غور کرو اور صبر سے کام لو یہاں تک کہ نیکوکار راحت پائے اور فاسق و فاجر سے راحت حاصل کی جائے۔امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ یعنی حکمران کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنا درست نہیں ہے اور روایات کے خلاف ہے۔‘‘ |