اطاعت نیک و بد تک پھیل گئی تو ایسے حکمران کے خلاف تلوار سے خروج جائز نہیں ہے‘ چاہے وہ ظلم کرے یا عدل۔‘‘ یہ واضح رہے کہ مالکیہ اورشوافع کی اکثریت اشعری ہے۔ابو عثمان صابونی رحمہ اللہ نے اسے سلف صالحین اور محدثین کا عقیدہ بھی قرار دیا ہے۔وہ فرماتے ہیں : ’’ولایرون الخروج علیھم بالسیف وإن رأوا منھم العدول عن العدل والجور والحیف۔‘‘ (30) ’’محدثین کی جماعت مسلمان حکمرانوں کے خلاف تلوار سے خروج کو جائز نہیں سمجھتی‘ اگرچہ وہ حکمران عدل سے ظلم و ستم کی طرف ہی کیوں نہ پھر جائیں ۔‘‘ امام ابو جعفر طحاوی نے اسے امام ابوحنیفہ‘ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا عقیدہ قرار دیا ہے۔وہ فرماتے ہیں : ’’ولا نری الخروج علی أئمتنا وولاۃ أمورنا وإن جاروا ولا ندعوا علیھم ولا ننزع یدا من طاعۃ ونری طاعتھم فی طاعۃ اللّٰہ عز وجل فریضۃ ما لم یأمروا بمعصیۃ وندعوا لھم بالصلاح والمعافاۃ۔‘‘ (31) ’’ اور ہم اپنے مسلمان حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں ۔اور ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بد دعا بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں شمار کرتے ہیں کہ جس کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے جب تک کہ یہ حکمران کسی گناہ کا حکم نہ دیں اور ہم ان کی اصلاح اور معافی کی دعا کرتے ہیں ۔‘‘ سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ولاینعزل الإمام بالفسق أی بالخروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالی والجور أی الظلم علی عباد اللّٰہ تعالی لأنہ قد ظھر الفسق وانتشر الجور من الأئمۃ والأمراء بعد الخلفاء الراشدین والسلف قد کانوا ینقادون لھم ویقیمون الجمع والأعیاد بإذنھم ولایرون الخروج |