’’وأما الخروج علیھم وقتالھم فحرام باجماع المسلمین وإن کانوا فسقۃ ظالمین وقد تظاھرت الأحادیث علی ما ذکرتہ وأجمع أھل السنۃ أنہ لاینعزل السلطان بالفسق۔‘‘ (27) ’’اور جہاں تک مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان سے قتال کا معاملہ ہے تو وہ بالاجماع حرام ہے اگرچہ وہ حکمران فاسق و فاجر اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں ۔اس مسئلے میں وارد شدہ روایات بہت زیادہ ہیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے۔اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ حکمران فسق و فجور کی وجہ سے امامت سے معزول نہیں ہوتا۔‘‘ ابن بطال رحمہ اللہ نے بھی اس اجماع کو بیان کیاہے ۔وہ فرماتے ہیں : ’’فی الحدیث حجۃ فی ترک الخروج علی السلطان ولوجار وقد أجمع الفقھاء علی وجوب طاعۃ السلطان المتغلب والجھاد معہ وأن طاعتہ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء۔‘‘ (28) ’’اس روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے اگرچہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں ۔فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بزور شمشیر غالب آنے والے حکمران کی اطاعت میں اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا واجب ہے۔اور اس کی اطاعت اس کے خلاف خروج سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس اطاعت کے ذریعے بہت ساخون گرنے سے بچایا اور باہمی اختلاف کرنے والی جماعتوں کو سکون میں لایا جا سکتا ہے۔‘‘ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے بھی اس اجماع کو بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں : ’’وأجمعوا علی السمع والطاعۃ لأئمۃ المسلمین وعلی أن کل من ولی شیئا من أمورھم عن رضی أو غلبۃ وامتدت طاعتہ من بر أو فاجر لا یلزم الخروج علیہ بالسیف جار أو عدل۔‘‘ (29) ’’علماء کااس اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی سمع و طاعت فرض ہے۔ اور جو شخص بھی مسلمانوں کی رضامندی یا بزور بازو ان کا حکمران بن گیااور اس کی |