تھی۔اس جماعت کے معروف فقیہہ عبد الرحمن ابی لیلی رحمہ اللہ نے اپنے ساتھیوں کو بنوامیہ کی افواج کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے جو تقریر کی‘ اس میں انہوں نے بنو امیہ کے حکمرانوں پر ’’المحلین المحدثین المبتدعین‘‘ کا الزام لگایا۔(35) اسی طرح نفس زکیہ رحمہ اللہ نے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے خلاف خروج سے پہلے جو اسے خط لکھاتھا‘ اس خط کی ابتداء ہی قرآن کی آیت ﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْہُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ہُمْ وَیَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ہُمْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَ وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ﴾سے کی تھی۔(36) نفس زکیہ رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ میں ابو جعفر المنصور کو طاغوت اور اللہ کا دشمن قرار دیااوراسے فرعون سے تشبیہہ دی اور اس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا لیا ہے۔(37) اسی وجہ سے علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس میں جو خروج ہوئے تھے ‘ اس کی وجہ اس وقت کے حکمرانوں کا محض فسق و فجور نہیں تھا بلکہ ان حکمرانوں کی طرف سے شریعت اسلامیہ کو تبدیل کردینا‘ حرام کو حلال بنانا اور کفر کا اظہار بھی ان کے خلاف خروج کا ایک بڑا سبب تھا۔(38) ہم یہاں یہ نہیں کہہ رہے کہ بنو امیہ اور بنوعباس کے حکمرانوں کو ہم کفر بواح کا مرتکب سمجھتے ہیں ۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ ہر دور میں مسلمان حکمرانوں پر کفر‘ شریعت کی تبدیلی‘ حرام کو حلال بنانے‘ دین کے بگاڑ اور طاغوت وغیرہ کے فتوے لگائے جاتے رہے ہیں ۔پس اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کچھ اصول و ضوابط اور منہج و طریقہ کار ہونا چاہیے کہ کسی حکمران نے واقعتا کسی کفر کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں ‘ یا اس نے کسی حرام کو حلال بنایا ہے یا نہیں ! یہ بات بھی واضح رہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں کوئی تحریری آئین یا قانون تو تھا نہیں کہ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اُس دور کا دستور اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق تھا یا نہیں ۔وہاں تو اصل قانون بادشاہ ِوقت کا حکم اور فیصلہ تھا۔ |