جائے۔ پس اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو اس کے ارتکاب میں حکمران کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔‘‘ 3۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظہ اللہ کے نزدیک ایسے ظالم حکمرانوں کے خلاف’ پُر امن خروج‘ جائز ہے یعنی وہ خروج جو قلم یا زبان یا پُرامن طریقے پر مبنی ہو ۔وہ فرماتے ہیں : ’’وأما إن کان الخروج بمجرد إظھار رأی مخالف والتعبیر عنہ باللسان أو القلم فھذا من المعارضۃ المشروعۃ ما دامت فی إطار المسلم ولا یجوز معارضۃ القلم أو اللسان بالسیف وإنما تقابل الحجۃ بالحجۃ والفکرۃ بالفکرۃ۔‘‘ (23) ’’اور اگر خروج کی صورت صرف یہ ہو کہ حکمرانوں کی رائے کے خلاف رائے کا اظہار زبان اور قلم کے ذریعے ہو تو حکمرانوں سے ایسا اختلاف کرنا مشروع ہے جب تک کہ مسلمانی کے دائرے میں ہو۔قلم اور زبان کا مقابلہ تلوار سے جائز نہیں ہے۔دلیل کا مقابلہ دلیل سے اور فکر کا فکر سے کیا جائے گا۔‘‘ پس ا گر کسی ظالم و غاصب حکمران کی معزولی اور اس کی جگہ کسی عادل حکمران کی تقرری بغیر کسی فتنے کے مثلاً پُر امن خروج یا احتجاجی سیاست سے ممکن ہو تو یہ امت مسلمہ کا ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ابن تین‘ داؤدی; سے نقل کرتے ہیں : ’’الذی علیہ العلماء فی أمراء الجور أنہ إن قدر علی خلعہ بغیر فتنۃ ولا ظلم وجب وإلا فالواجب الصبر۔‘‘ (24) ’’ظالم حکمرانوں کے بارے میں علماء کا قول یہ ہے کہ اگر بغیر فتنے و فساد اور ظلم کے حکمرانوں کو معزول کرنے کی قدرت و طاقت ہو تو ایسا کرنا واجب ہے اور اگر بغیر فتنے و فساد کے یہ ممکن نہ ہو تو پھر صبر کرنا واجب ہے۔‘‘ 4۔ جمہور اہل سنت کے نزدیک ظالم حکمران کے خلاف مسلح بغاوت یا خروج جائز نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اس کے دلائل درج ذیل احادیث ہیں ۔ آپ کا ارشاد ہے: ((یکون بعدی أئمۃ لا یھتدون بھدای ولا یستنون بسنتی وسیقوم فیھم رجال قلوبھم قلوب الشیاطین فی جثمان إنس قال حذیفۃ: |