ذریعے رکھا لیکن ان کے جیسا اس کا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہی ان افعال کی وجہ سے اس کا ایمان غائب ہوا ہو تو ایسا مسلمان اللہ کے اس غصے اور مذمت کا مستحق ہے جو ان کفار کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔۔۔علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب تک کفر پر رضامندی کے بغیر اور کفار سے کسی معاہدے کی بنا پر اس سے تعلق ولایت ہو تو ایسا تعلق اسلام کے دائرے سے اخراج کا باعث نہیں ہے لیکن ایک بڑی گمراہی ضرور ہے اور اس گمراہی کے مراتب بھی کفار سے تعلق ولایت کی شدت اور مسلمانوں کے احوال و ظروف کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔‘‘ یہ بھی ضمناً واضح رہے کہ حربی کفار اورحربی یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلق ولایت جائز نہیں ہے لیکن ان کے ساتھ معاہدات اورمعاملات وغیرہ جائز ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاہدات کیے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ تجارت کی۔اسی طرح مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ آپ کا قرض کا معاملہ چلتا رہتا تھایہاں تک کہ آپ کی وفات ہوئی اور آپ ایک یہودی کے مقروض تھے۔ (30) غیر حربی کفار اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ احسان و حسن سلوک بھی جائز ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ (31) ’’ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمہیں منع نہیں کرتا کہ تم ان کافروں سے حسن سلوک کرو یا انصاف کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ لیکن غیر حربی کفار اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلق ولایت رکھنے کے بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں ۔ایک قول تو یہ ہے کہ غیر حربی کفار کے ساتھ بھی تعلق ولایت رکھنا حرام ہے۔اس قول کے دلائل وہ تمام آیات ہیں کہ جن میں کفار کے ساتھ تعلق ولایت قائم کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: |