تاویل کی ہے۔وہ فرماتے ہیں : ’’﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ من شرطیۃ تقتضی أن کل من یتولاھم یصیر واحدا منھم۔۔۔وقد تأولھا المفسرون بأحد تأویلین: إما بحمل الولایۃ فی قولہ ومن یتولھم علی الولایۃ الکاملۃ التی ھی الرضی بدینھم و الطعن فی دین الإسلام ولذلک قال ابن عطیۃ: ومن تولاھم بمعتقدہ ودینہ فھو منھم فی الکفر والخلود فی النار وأما بتاویل قولہ: فإنہ منھم علی التشبیۃ البلیغ أی فھو کواحد منھم فی استحقاق العذاب قال ابن عطیۃ: من تولاھم بأفعالہ من العضد ونحوہ دون معتقدھم ولا إخلال بالإیمان فھو منھم فی المقت والمذمۃ الواقعۃ علیھم۔۔۔وقد اتفق علماء السنۃ علی أن ما دون الرضا بالکفر وموالاتھم علیہ من الولایۃ لا یوجب الخروج من الربقۃ الإسلامیۃ ولکنہ ضلال عظیم وھو مراتب فی القوۃ بحسب قوۃ الموالاۃ وباختلاف أحوال المسلمین۔‘‘ (29) ’’﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾میں ’من‘ شرطیہ ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ جس نے بھی ان کفار سے تعلق ولایت قائم کیا وہ انہی میں سے ایک ہو گا۔۔۔لیکن مفسرین نے اس آیت کی دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔یا تو اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ﴾میں ولایت سے مراد ولایت کاملہ یعنی کافروں کے دین پر راضی ہو جانا اور دین اسلام پر طعن کرناہے ۔اسی لیے ابن عطیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے:جس نے کفار سے تعلق ولایت اپنے عقیدے اور دین کی وجہ سے رکھاتو ایسا مسلمان کفر اور دائمی جہنمی ہونے کے اعتبار سے انہی کفار کی مانند ہے۔اس آیت کی دوسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ یہ تشبیہہ بلیغ ہے[تشبیہہ بلیغ اس کو کہتے ہیں کہ جس میں حرف تشبیہہ محذوف ہو] یعنی مراد یہ ہے کہ مسلمان عذاب کا مستحق ہونے میں انہی کفار جیسا ہے۔ابن عطیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے:جس مسلمان نے ان کفار سے تعلق اپنے افعال مثلاً ان کی مدد و نصرت وغیرہ کے |