شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ﴾(24) اور حدیث مبارکہ((مَنْ حمل عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا)) (25)میں اصل مقصود شدت تحذیر ہے نہ کہ ملت سے اخراج۔امام رازی رحمہ اللہ ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ قال ابن عباس: یرید کأنہ مثلھم وھذا تغلیظ من اللّٰہ وتشدید فی وجوب مجانبۃ المخالف فی الدین و نظیرہ قولہ ﴿وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْٓ﴾۔‘‘ (26) ’’﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ کا معنی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا ہے کہ گویا کہ وہ شخص انہی یعنی کفار کی مانند ہو گا۔اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنارہ کشی کے وجوب کے بارے میں ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے اور اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا قول﴿وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْٓ﴾ہے ۔‘‘ امام بیضاوی رحمہ اللہ نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔ (27) امام نسفی الحنفی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔امام صاحب﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’من جملتھم وحکمہ حکمھم وھذا تغلیظ من اللّٰہ وتشدید فی وجوب مجانبۃ المخالف فی الدین۔‘‘ (28) ’’ یعنی وہ شخص من جملہ انہی میں سے ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو ان کا حکم ہے اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنارہ کشی کے وجوب کے بارے میں ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے۔‘‘ ابن عاشور مالکی رحمہ اللہ نے تو اس بات پر امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کافر یا غیر مسلم سے تعلقِ ولایت تو رکھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے لیکن ان کے مذہب کو صحیح نہیں سمجھتااور اسلام کو دین حق سمجھتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور ضال تو ہے لیکن بالاتفاق کافر نہیں ہے۔ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ سے مراد یا تو تحذیر و تشدید ہے یا پھر کافر کے دین کو صحیح سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ولایت کا تعلق قائم کرنے پر یہ وعید ہے اور مختلف علماء نے اس آیت کی ان دو میں سے کوئی ایک |